ملک کے نادان دوست ہی ملک کے دشمن ہیں۔ چاہے نادانستگی اور کم شعوری ہی کی بنا پر کیوں نہ ہوں۔ یہ وہ نادان دوست ہیں جنہوں نے اپنی ریاست کے ماتھے پر دہشت گردی کا جھومر سجانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جہاد کے اس غلط تصور کی بنیاد پر کہ ہر ظلم کو اور ظالم کو طاقت سے مٹانا ہی جہاد ہے۔ فطرت کے اس اصول کو فراموش کر کے طاقت پر انحصار خود طاقتور کو آخر تباہ کر ڈالتا ہے۔ اس میں بہت کچھ قصور ان کا بھی ہے جنہوں نے ایسی تنظیموں کو بڑھاوا دیا یا پھر ان کی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ اب اگر ایسی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا بیڑہ اٹھایا گیا ہے تو اسے انجام تک پہنچانا چاہیے اس ملک کی بنیادوں میں ہزار ہا مظلوموں کا لہو ہے اور یہ لہو اس یقین کی بنیاد پر دیا گیا تھا کہ ایک ایسی ریاست وجود میں آئے جو مسلمانان ہند کے لئے امن و سلامتی کی ضامن ہو۔ جہاں ظلم اور ناانصافی نہ ہو‘ مذہب کو استحصال اور خون ریزی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ایک ایسی ریاست جس میں انسانیت کو پناہ مل سکے۔ اسلام فتنہ اور کشت و خون کو کسی حالت میں پسند نہیں کرتا۔ اس دین میں ظالم کو ظلم سے روک کر اس کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہتھیار اٹھانے کا حکم صرف اسی صورت ہی ہے جب مقابل لڑنے بھڑنے کے لئے سامنے آ کھڑا ہو اور امن و امان کے قیام کی کوئی دوسری صورت ممکن نہ رہے۔ ظالم کے ظلم سے بچنے کے لئے ہجرت کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ قتال کا حکم بھی امن و سلامتی اور خدا وند تعالیٰ کی واحدانیت کے اعلان کے لئے ہے۔ آج تدبر اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ ہر مسئلے کو خواہ وہ کتنا ہی پے چیدہ کیوں نہ ہو۔ بات چیت ‘ مذاکرات اور مکالمے سے حل کیا جائے۔ لاشوں کے انبار لگانے اور خون بہانے سے امن کا قیام ممکن ہوتا تو کشمیر‘ فلسطین اور دوسری مظلوم بستیوں میں امن ہی ہوتا۔ بھارت نے کشمیریوں کو دبانے کے لئے کتنا زور لگا لیا۔ کشت و خون کا کیسا بازار گرم کیا لیکن اس کے حصے میں کیا آیا؟ ہزیمت اور رسوائی ہی اس کا مقدر ہے اور آج نہیں تو کل اسے کشمیر سے ہاتھ دھونے ہی پڑیں گے۔ خدا وند تعالیٰ کا یہ بڑا کرم ہے کہ ہمارا ملک دہشت گردی کے چنگل سے بتدریج نکل رہا ہے۔ قانون کی بالادستی اور عملداری کے ذریعے داخلی سکون اور چین و امن کی ہر صورت میں حفاظت کی جانی چاہیے قومی ترقی کے لئے یہ اشد ضروری ہے۔ عافیت اور سلامتی کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں۔ اسلام اعتدال ‘ راستی اور سلامتی کا دین ہے اور اس کی نگاہ میں انسانی جان محترم ہے۔کعبے سے بھی زیادہ محترم۔ ہمارے پڑوسی ملک کو بھی آج جس المیے کا سامنا ہے وہ اس کے سوا کیا ہے کہ سرکار وہاں کی انتہا پسند‘ عوام کا بڑا طبقہ انتہا پسند‘ میڈیا ان کا انتہا پسند تو انتہا پسندی کا نتیجہ رسوائی اور پسپائی ہی کی صورت میں نکلے گا۔ جس ملک میں ماضی کے باپو(گاندھی جی) کی تصویر جلائی جائے‘ اسے پستول سے گولی کا نشانہ بنایا جائے‘ اس کی عدم تشدد کی پالیسی کو مسلمانوں سے ہمدردی قرار دیا جائے اور یہ سب کچھ کر کے یہ بتایا جائے کہ اسلام ہندوئوں اور کافروں کا دشمن ہے لہٰذا اس کے پیروکاروں پر زندگی اجیرن کر دینا ہی ہندو دھرم کا سب سے بڑا کارنامہ ہو گا۔ اندازہ کیجیے کہ بھارت‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار ملک ناسمجھی و نادانی کے کس راستے پر چل پڑا ہے بالآخر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ نفرت ایک بیماری اور روگ کے سوا کچھ نہیں اور انجام کار نفرت خود اپنے رکھنے والے ہی کو کھا جاتی ہے اس لئے کہ انسان کی فطرت معصوم ہوتی ہے اور جب وہ اپنی فطرت سے اغماض برتتا ہے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اس دنیا میں محبت کرنے والے پھلتے پھولتے اور نفرت کرنے والے جلد یا بدیر اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ ظالموں اور نفرت کرنے والوں کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ بھارت جہاں جدید علوم کو سیکھنے کی ابتدا مسلمانوں سے پہلے ہوئی۔جہاں کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے جمہوریت کادرس مسلمانوں سے پہلے لیا۔ اس بھارت میں امن‘ آزادی اور جمہوریت کے برخلاف فسطائی انداز فکر کی تخم ریزی اتنے وسیع پیمانے پر کیسے ہو گئی۔ غالباً اس کا سبب یہی ہے برہمن عقیدہ جو چھوت چھات اور نجس و ناپاک کے تصورات سے عبارت ہے۔ جس میں دوسرے عقیدے کے ماننے والوں کے لئے کوئی رعایت نہ ہو اور وید کے مقدس الفاظ شودروں کے کانوں میں پڑ جانے سے ان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دینے کا حکم ہو‘ اس مذہب میں تنگ دلی اور تنگ نظری پیدا ہو جانا عین ممکن ہے۔ اگر مودی سرکار اور اس کے انتہا پسند چاہنے والوں کو پیچھے نہ دھکیلا گیا اور اعتدال پسند طبقہ آگے نہ آیا تو یہ تنگ دلی اور تنگ نظری بھارت جیسے گرانڈیل ملک کومتحد نہ رکھ سکے گی۔ کشمیر کے علیحدہ ہوتے ہی خالصتان وجود میں آئے گا اور دوسری ریاستیں بھی علیحدگی پسندی کے راستے پر چل پڑیں گی۔ گاندھی اور نہرو کی سیکولر پالیسی جس کے مطابق ہندوستان تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے‘ ایک دانش مندانہ پالیسی تھی اور اسی پالیسی میں بھارت کی نجات مضمر ہے۔ لیکن اب اسے کیا کہا جائے کہ مسز اندراگاندھی نے بنگلہ دیش کے قیام میں اپنا حصہ بٹا کر ہندو انتہا پسندی کو تقویت دی اور اب ان ہی کا خاندان کانگریس اس طرز عمل سے پیدا ہونے والی ہندو عصبیت کی فصل کاٹ رہا ہے چو این لائی جو چین کے نہایت دانش مند وزیر اعظم تھے‘ بنگلہ دیش کے قیام پر یہی تبصرہ کیا تھا کہ ہندوستان نے ہوائوں میں تخم ریزی کی ہے۔ آئندہ اسے طوفانوں کی فصل کاٹنی پڑے گی۔ ہمارے حکم رانوں نے تدبر کا مظاہرہ نہ کیا تو نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا اور اب بھارتی سرکاری تصادم کی راہ پر چل پڑی ہے تو اسے بھی ایسے ہی نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ گزشتہ تاریخ سے انسانوں نے ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ کچھ نہیں سیکھا اور نہ سیکھنے کی سزا بھی تاریخ ہی کی طرف سے بھگتنی پڑتی ہے۔ ہمیں صدق دل سے ریاستی سطح پر یہ طے کرنا ہو گا کہ دہشت گردی کو کسی صورت میں برداشت نہ کیا جائے۔ طاقت کے ہنگام کو طاقت ہی سے مٹایا جاتا ہے لہٰذا اس فتنے کے خاتمے کے لئے طاقت استعمال کرنی پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ دنیا میں انسان امن و سکون اور سلامتی کے ساتھ رہنے کے لئے آیا ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کی نیند سونے نہیں آیا۔ یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آ جائے اتنا ہی بہتر ہے۔