5اگست کو مودی حکومت نے جس طرح ریاست جموں کشمیر کی آٹانومی کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ ریاست ہی تحلیل کی، لگتا ہے کہ اسلام آباد اب اسکو تقریباً حقیقت حال تسلیم کرنے لگا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک نے سرکاری طورپر بہت زیادہ رد عمل نہیں دکھایا، مگر غالباً1990 ء کے بعد پہلی بار کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی گروپس نے خوب کوریج دی۔ حکومتوں کو چھوڑ کر ان ممالک میں موجود سول سوسائٹی گروپس، خواتین اراکین پارلیمان اور بچوں سے متعلق حقوق کی تنظیموں پر کام کرکے ان کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ مغربی ممالک میں یہ ایک موثر پریشر گروپ کے بطور کام کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ امارت کے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان ممالک کو پس پردہ ثالثی کے کردار کیلئے آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو، تو بجائے اشرف جہانگیر قاضی کے تجاویز کے، یہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حتمی حل کے سلسلے میں ہی ہونے چاہئے۔ قاضی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے تمام محاذوں پر اپنے کام کو صاف کرنا ہوگا۔ استحکام اور خوشحالی کے حصول کے لئے اسے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ، تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت امیج پیش کر سکے، جس سے اس کے نقطہ نظر کو دنیا میں وقعت ملے۔ سابق سفارت کار کا کہنا ہے، کہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب ہی ممکن ہے ، جب پاکستان میں موجود مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کئے جائیں۔ انڈین ایکسپریس اخبار کی طرف سے منعقد ایک تقریب خطاب کے دوران اور بعد میں فرانسی اخبار لامونڈکو انٹرویو دیتے ہوئے، جے شنکر نے صاف کیا کہ بھارت اب بدل چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میں کشمیر سے علیحدگی کا رجحان ختم کرنا اور دہشت گردی کا موثر جواب دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں اور اوڑی میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں بھارت کا رد عمل مختلف تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے امن کی خاطر بھارت کیلئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسٹریٹیجک افادیت کو صرف نظر کر دیا تھا۔ شاید دبے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر پر بھارت کسی بھی وقت اب کوئی عملی قدم اٹھانے والا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے تاسف کا اظہار کیا کہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی بھارت ابھی تک اپنے سرحدی تنازعات کو سلجھا نہیں پا رہا ہے۔ بھارت میں اسوقت اقتدار کے تین ستون یعنی مودی ، امیت شاہ اور قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کا خیا ل ہے کہ کہ 70سالوں میں یہ پہلا اور آخری موقع آگیا ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ انکی مانگ ناقابل حصول ہے ۔اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے رو شناس کروانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مانگ کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسلئے ایسے اداروں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔ دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کی کمزور رگوں یعنی بلوچستان اور گلگت۔بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اسکو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے territorial dominance حاصل کرواکے ، پاکستان اور کشمیری عوام کا مائنڈ سیٹ تبدیل کروانا ہے۔جس سے ایک طرف پاکستان تائب ہوجائے، اور دوسری طرف کشمیر یو ں پر یہ واضح ہو کہ بھارت کے بغیر ان کا مستقبل کہیں اور نہیں ہے۔اس کے علاوہ بھارت نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرنے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب او ر سیاست نہیں کرسکتی ہیں بلکہ ان کو بھی ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرز پر صرف تعمیر اور ترقی کے ایشوپر ہی توجہ مرکوز کرنا پڑے گا۔مگر دوسری طرف کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ جس چیز کو مودی اور اسکے حواری ناقابل حصول بنانا چاہتے ہیں وہ اسکوحاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اعتراف ہے کہ پاکستان یا اسکی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ اٹھا نہیں رہی ہے، جس کا اندیشہ تھا۔ ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے نیز پی ڈی پی اور این سی کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات 1989-90ء کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔آخر کون امن نہیں چاہتا؟ اسکی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی صاحب سے بس یہی گذارش ہے کہ امن ، قدر و منزلت ، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ (ختم شد)