گزشتہ کالم ان الفاظ پر ختم کیا تھا؛ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ نیا پاکستان ہے اور فوج کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی فوج نئی فوج ہے تو اس بات پر بھارت بھی یقین کرے۔ امن کی آفر کو اپنے الیکشن کی فتح کی خاطر نظر انداز نہ کرے ورنہ ، جنوب مشرقی ایشیا ایک نیا خطہ بننے جا رہا ہے جہاں پر امن اور ترقی اب شروع ہونے کو ہے، بھارت اسکا موئثر حصہ بننے سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ایک تجزیہ بھی اور ایک ایسی حقیقت ہے جس کو نظر انداز کرنا ہمارے خطے میں کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں ہے۔ جس طرح سے معاملات افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اسکا مثبت نتیجہ نکلنے کے امکانات دن بدن بڑھ رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے میں معاشی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے امید کی وجہ گزشتہ کچھ ماہ سے امریکہ کا رویہ ہے۔انہوں نے اس سے قبل تین مرتبہ مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن عین موقعہ پر کچھ ایسا کام دکھایا کہ سارا عمل متاثر ہوا۔ اس بار جب سے یہ مذاکرات شروع ہوئے ہیں امریکی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ ہر اس عمل کی راہ میں کھڑی ہے جس سے یہ متاثر ہو سکتا ہے۔حتیٰ کہ حالیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو میں انہوں نے فوری طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ماضی میں ایسے کسی بھی موقعہ پر امریکہ معاملات بہتر کرنے میں مدد ضرور کرتا تھا لیکن پہلے پاکستان پر اس کی آڑ میں بھر پور دبائوڈالا جاتا تھا اور اپنی جائز و ناجائز بات منوانے کی کوشش کی جاتی تھی۔اس بار تو امریکہ کے ساتھ مذاکرات میںشریک طالبان کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنائو سے افغان امن عمل متاثر ہو گا۔ سر دست یہ تبدیلی ہے جو اس امر کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اس خطے میں با لآخر امن آنے کو ہے۔ اس امن کے نتیجے میں معاشی ترقی کی جو بات کر رہا ہوں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔افغانستان میں صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی ہو جائے گی جو اس وقت تک بیرونی دنیا سے براہ راست رابطوں میں بہت پیچھے ہیں۔ تجارت کا ایک بہت بڑا دروازہ اس سے کھلے گا جس سے دنیا کے تمام ممالک مستفید ہوں گے۔ جو سرمایہ کار پاکستان اور بھارت میں کام کر رہے ہیں یا اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے یہاں پر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں انکے لئے یہ موقعہ غنیمت ہے۔لیکن اس ساری سرمایہ کاری کو سہولت دینے کے لئے اس خطے میں صرف افغانستان میں نہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن بھی ضروری ہے اسکے ساتھ ساتھ امریکہ اور ایران کے درمیان معاملات کی بہتری بھی ضروری ہے۔میری اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔اگر ہر جگہ پر امن قائم ہوتا ہے لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات درست نہیں ہوتے تو باقی سارا امن عمل بھی بیکار رہے گا۔ کیونکہ امریکی فوجیں تو شاید افغانستان سے نکل جائیں لیکن امن عمل کی تکمیل کے لئے جس قسم کے ماحول کی وہاں ضرورت ہو گی اور تعمیر نو کے لئے جس قسم کے وسائل بیرونی دنیا سے وہاں پہنچانے ضروری ہوں گے وہ نہیں ہو پائے گا۔بھلے کچھ بھی ہو لیکن خطے کا ایک اہم ملک اور ابھرتی ہوئی معیشت ہونے کے حوالے سے بھارت کا افغانستان میں معاشی فائدہ موجود ہے۔اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے وہ ایک بہت بڑی مارکیٹ سے تو محروم ہو گا ہی لیکن دنیا بہت دیر تک اسکے اس رویّے کو برداشت نہیں کرے گی اور ایک دن اسکو اپنی شرائط پر نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کی شرائط پر پاکستان سے معاملات طے کرنے پڑیں گے۔ علاقائی تعاون کے بڑھنے سے خطے میں موجود ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل میں بھی مدد ملے گی اور بہتر معاشی فوائد کے حصول کی خاطر یہ مسائل معمول سے جلدی حل ہونگے۔ان تعلقات میں پائیداری بھی زیادہ ہو گی اور یہ کسی ایک یا دو واقعات کی وجہ سے ملکوں کے درمیان مخاصمت پیدا نہیں کرینگے۔ مودی سرکار جو بھی کہے لیکن انتخابات جیتنے کے لئے وہ جس نہج پر چل نکلے ہیں اسکے نتیجے میں ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، جیسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ پلوامہ کے حملے کی آڑ میں جو کام مودی سرکار نے شروع کیا تھا وہ اسکے گلے پڑ گیا ہے۔ اب الیکشن جیتنا بھی مشکل ہو گیا ہے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان نے اپنے امن پسند ہونے کے عملی مظاہرے سے بھارت پر دبائومیں اضافہ کیا ہے۔اسکے نتیجے میں بی جے پی، جو کہ پہلے ہی ریاستی انتخابات میں بری طرح ہار رہی ہے، قومی انتخابات میں کانگرس سے شکست کھا جاتی ہے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کی صورت تیزی سے پیدا ہوگی۔ کانگرس روایتی طور پر روس کے زیادہ قریب رہی ہے اورحکومت کی تبدیلی سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کا امریکہ اور روس کے درمیان کم ازکم متوازن تعلقات کا امکان بہت بڑھ جائے گا جو پاکستان کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ1971ء کی جنگ کے بعد جب روس اور چین کے تعلقات بہت خراب تھے اور پاکستان ، چین اور امریکہ کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا تھا تو روس پاکستان سے شدید ناراض تھا ۔لیکن پاکستان نے جب بھارت کے ساتھ مذاکرات میں روس کو کردار ادا کرنے کا کہا تو انہوں نے پوری مدد کی ۔ بالآخر ان مذاکرات کے نتیجے میںشملہ معاہدہ طے پایا اور پاکستان کے جنگی قیدی واپس آئے۔ اب روس، چین اور پاکستان کے تعلقات بہترین ہیں اور خطے کا امن تینوں ملکوں کی ترجیح ہے تو بھارت کے ساتھ معاملات بہتر بنانے میں یہ دونوں ملک، خصوصاً روس بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے جس کے لئے وہ تیار بھی ہے۔ امید ہے کہ عام انتخابات کے بعد آئندہ جون میں بھارت میں نئی حکومت قائم ہو چکی ہو گی اور خطے میں امن کے قیام کا وقت بھی شروع ہو جائے گا۔