ہم نے تو ہمیشہ کی طرح پیار سے سمجھایا تھا۔بھارت نہیں سمجھنا چاہتا اس کی مرضی۔ پہلے ہم پیار سے سمجھاتے ہیں۔اس کے بعد ہم کھیل کو اپنی مرضی کے میدان میں لے آتے ہیں۔یقین نہیں آتا تو امریکہ سے پوچھ لیں۔جو افغانستان سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔جب ایک بار جنگ چھیڑ دی جائے تو اس کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔وقت اور حالات اصول طے کرتے ہیں۔ جس پہ جنگ مسلط کی جائے اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس کا جواب اپنے دستیاب وسائل میں جس طرح چاہے دے۔بھارت کو تیار رہنا چاہئے۔کچھ غلط فہمیاں البتہ ہمیں بھی رفع کرلینی چاہیں۔اگر بھارت کے موجودہ جنگی جنون کو محض مودی کا انتخابی اسٹنٹ سمجھا جارہا ہے تو یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ بھارت کا جنگی جنون کوئی نئی بات نہیں ہے۔وہ ہر حال میں پاکستان پہ جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے اور یہ اس کی خارجہ پالیسی میں بنیادی ان لکھا نکتہ ہے۔جب پاکستان دو لخت ہوا توہندوستان میں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی۔کانگریس آئی کی اندرا گاندھی کی حکومت تھی ۔پاکستان کو کس طرح بھارتی انٹیلیجنس اور پھر دراندازی کے ذریعے تقسیم کیا گیا اور بارہا اس پہ فخر کا اظہار کیا گیا یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ پینسٹھ کی جنگ میں بھارت میںکانگریس کے سینئر رہنما لال بہادر شاستری وزارت عظمی کی کرسی پہ براجمان تھے۔اسے بھی چھوڑئے ،قیام پاکستان کی بنیاد ہی کانگریس کے مسلم دشمن رویے نے رکھی۔جب ہندوستان تقسیم ہوا تو کونسی بی جے پی وہاں موجود تھی؟موجودہ بھارتی جنتا پارٹی کی بنیاد اٹل بہاری واجپائی نے 1980ء میں رکھی۔ البتہ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی ونگ بھارتیہ جنا سنگھ 1951ء سے 1977 ء بھارتی لوک سبھا میں معمولی نمائندگی کے ساتھ موجود رہا۔1977ء میں اس کا ایک دھڑا کانگریس کے ساتھ ضم ہوگیا جبکہ دوسرا دھڑا موجودہ بھارتی جنتا پارٹی بن گیاجس کا انتہائی واضح اور مکروہ چہرہ مودی ہیں اور اس کے لئے ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ہندو ذہنیت کے بے حجاب اظہار کے لئے شکرگزار۔مسلمانوں کے لئے ہمیشہ سے متعصب،انہیں صفحہ ہستی سے مٹادینے کے مکروہ عزائم رکھنے والے اور پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کرنے کی روایت کا تسلسل یہ بھارتی جنتا پارٹی ہے جس پہ کانگریس کے بظاہر معتدل چہرے نے منافقانہ نقاب ڈالے رکھا۔ اس لئے یہ طے ہے کہ مودی بھارت کا آخری سربراہ ثابت ہوگا جو پاکستان کو سبق سکھانے کی حتمی کوشش کرے گا۔ اس کا تعلق اس کی انتخابی مہم سے ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ برسراقتدار آیا ہی اس لئے ہے کہ پاکستان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کرسکے۔ اس کے پیچھے مسلمانوں کی ہندوستان پہ ہزار سالہ حکومت کی خجالت بھی ہے اور ہندوستان کی تقسیم کا زخم بھی جو کسی حد تک اکہتر میں مندمل ضرور ہوا لیکن بچے کچھے پاکستان نے جس طرح جوہری طاقت حاصل کی اور ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا یہ اس کے لئے نہایت تشویش اور تذلیل کی بات ہے ۔ اس تشویش و تذلیل کو ہمیں جزوی،ہنگامی یا وقتی طور پہ نہیں، مکمل ، مربوط اور تاریخی گہرائی میں سمجھنا ہوگا۔ اسے محض مودی کی انتخابی مہم جوئی سمجھنا،تاریخ سے بدترین بے اعتنائی ہوگی۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ ریاستوں میں مودی نے بدترین شکست کھائی ہے لیکن یہ بالکل بے بنیاد بات ہے کہ اس شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے جنگ کا کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔جنگ اس لئے چھیڑی جارہی ہے کہ اگلے انتخابات میں مودی سرکارکو دوبارہ موقع ملنا دشوار نظر آتا ہے۔اگریہ محدود جنگ مکمل جنگ میں تبدیل ہوگئی تو اس بات کا یقین کرنے میں کوئی حرج نہ ہوگا کہ اگلی باری مودی کی نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے ہی فیصلہ کن جنگ بھارت کو کرنی ہی ہوگی۔ یہ انتخابی نہیں تاریخی مجبوری ہے۔ہزار سالہ تاریخ کی مجبوری۔مقدس ہند پہ برہما راج کا قدیم خواب۔ہم اسے سمجھ نہیں پارہے کیونکہ ہم تاریخ کو ذرا جلدی بھول جاتے ہیں۔وہ نہیں بھولتے۔دسمبر 2017 ء میں بی جے پی کے ایم پی سبرامیانیان سوامی نے ایک انٹرویومیں واضح طور پہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ایک جنگ ناگزیر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کب ہوگی انہیں علم نہیں لیکن اس کے لئے سنجیدہ ہوم ورک شروع کردینا چاہئے۔اسی متعلق ایک اہم رپورٹ انڈین ڈیفینس ریوومیں شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہی پاکستان کے خلاف جنگ ناگزیر ہے، ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائے بغیر ہی اس ذہنیت کو سمجھنا دشوار نہیں کہ بھارت اسلحے کے ڈھیر کس کے خلاف لگا رہا ہے۔چین کے خلاف تو ہرگز نہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے ، بھارت کا اصل مقصد مقبوضہ کشمیر میں مکمل تسلط اورمسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ گو یہ گزشتہ ستر برسوں سے جاری ہے لیکن مودی کی آمد کے بعد اس میں بہیمانہ اضافہ ہوا ہے۔ ظلم ، جبر اور اسبتداد کا ایک نیا سلسلہ وادی میں جاری ہے۔کشمیر میں آرٹیکل35 A کا خاتمہ جو کشمیریوں کو مستقل علیحدہ حیثیت دیتا ہے اور جس کی رو سے کوئی غیر کشمیری ،وادی میں زمین نہیں خرید سکتا، کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش ہے جس کا آغاز مودی سرکار نے کردیا ہے۔بھارت کے لئے تشویش ناک بات یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں نے جہاد کا مطلب سمجھ لیا اور زمام کار اپنے ہاتھوں میں لے لی۔میں ایک بار پھر پوری ذمہ داری سے کہنے کو تیار ہوں کہ آج کشمیری نوجوان کو پاکستان سے کسی قسم کی عسکری ، تربیتی یا تزویراتی کمک فراہم نہیں کی جارہی۔وہ اپنی جنگ خود لڑ رہا ہے اور یہی بھارت کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہے۔اسے اس طوفان کو جلد از جلد کنٹرول کرنا ہے اس سے پہلے کہ یہ آگ بہت دور تک پھیل جائے۔ آپ نے دیکھا پلوامہ حملے کے بعد کشمیر میں بھارتی جبر و تشدد کس طرح پس منظر میں چلا گیا ہے۔پاکستان کواس پھیر میں نہیں آنا چاہیے۔یہ گو لمحہ فکریہ ہے کہ کشمیر جو کبھی ہماری شہہ رگ ہوتا تھا آج ہمارے لئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا عام سا مسئلہ بن کے رہ گیا ہے اور اس کے لئے ہماری کل حمایت سفارتی اور اخلاقی حد تک رہ گئی ہے ۔جب تک کشمیر ہماری شہ رگ تھا ہم اس کے لئے جنگ کرتے تھے آج ہم صرف مذمت کرتے ہیں۔ پینسٹھ کی جنگ کا محرک آپریشن جبرالٹر ہماری ناکامی نہیں یا دراندازی نہیں ہمارا فرض تھا۔ اگر ہم ناکام ہوتے یا ہماری فوج میں اہلیت نہ ہوتی تو ہم پینسٹھ کی جنگ بھی ہار جاتے ۔اب تک بھارت سے ہماری ہر جنگ کھلے محاذوں پہ ہوئی ہے۔ اس بار بھارت نے ہمارے خلاف ایک گندا اور خطرناک کھیل کھیلا ہے اور وہ ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ۔پاکستان بھی کلبھوشن یادیو کی حراست کے بعد یہی کھیل کھیل سکتا تھا۔ بھارتی دہشت گرد گروپوں کی پاکستان میں کاروائیوں کے خلاف منظم مہم چلائی جانی چاہئے تھی۔اب چونکہ دیر ہو چکی ہے اور بھارت نے پہل کردی ہے اس لئے وہی پیغام بہتر ہے جو سفارتی سطح پہ دیا جارہا ہے یعنی امن کا پیغام جبکہ جارحیت کا جواب جارحیت سے دیا جاتا رہے ۔فی الوقت یہی بہترین پالیسی ہے۔