جبر کے کھیت میں امن کے پھول نہیں کھلتے‘ نفرت کی جھاڑیاں اگتی ہیں۔ سماج کے اجتماعی شعور میں نفرت کا لاوا بغاوت بن کر ظلم کی سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر پھوٹتا ہے۔ آج مسلمان دہشت گردی کی جنگ کا ایندھن بھی ہیںاور دہشت گردی کا لیبل لگا کردنیا نسل کشی بھی ان ہی کی کر رہی ہے۔ تاریخ مظلوم اور ظالم کاقصہ بیان نہیں کرتی،فاتح کی جیت کے گیت گاتی ہے۔برطانوی مورخ آرنولڈ ٹوائن بی نے 1961ء میں کینیڈا کی مک گل یونیورسٹی میں اسرائیل کے عربوں پر مظالم کا تذکرہ ہوئے کہا تھا: نازیوں نے 60لاکھ یہودیوں کو قتل کیا۔ آج یہودی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں اور دنیا اسرائیل کے ناقابل دفاع جرائم کا حصہ بن چکی ہے۔ وہ کہتا ہے مظلوم جب قوت پکڑتے ہیں تو اپنی طاقت کو مظلوموں کے تحفظ کے بجائے ظلم کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ٹوائن کے الفاظ اس وقت بھی تاریخ کے تناظر میں سچ تھے اور آج کے حالات کی حقیقت بھی ہیں۔ محض وقت بدلا ہے کردار بدلے ہیں۔ ہتھیار اور انداز بدلے ہیں ،نشانہ آج بھی کمزور اور مظلوم ہی ہیں۔! پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جنرل ایلن بی بیت المقدس پر قبضے کے بعد وہاں پہنچا تو اس کے الفاظ تھے’’ آج صلیبی جنگوں کا اختتام ہوا‘‘ انگلستان کے وزیر اعظم لائر جارج نے کہا تھا’’ ہم نے وہ کارنامہ انجام دیا جو کروسیڈ انجام نہ دے سکے‘‘ فرانسیسی جنرل گورو نے صلاح الدین ایوبی کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا تھا’’اے صلاح الدین ہم واپس آ گئے‘‘ پچاس کی دہائی میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا تھا ’’اسلامی دنیا ایک جن ہے جسے جکڑ دیا گیا ہے آئو ہم اپنی تمام تر قوت لگا دیں تاکہ یہ جن دوبارہ سر نہ اٹھا سکے‘‘ جارج بش نے عراق جنگ کو صلیبی جنگ کہا تھاتو ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی یہی دعویٰ رہا ہے یہ الگ بات کہ عراق، شام، یمن، افغانستان میں 10لاکھ مسلمانوں کا خون بہانے کے بعد آج انہیں طالبان سے محفوظ راستے کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔ یہ ستم ہی نہیں تاریخ کا المیہ ہے کہ ماضی میں تاریخ مظلوم کا قصہ نہیں فاتح کا قصیدہ لکھتی رہی ہے آج میڈیا یہ’’ عظیم کارنامہ‘‘ انجام دے رہا ہے۔ ایک سال پہلے الاباما یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں مسلمان اگر کسی کارروائی میں ملوث ہو تو عالمی میڈیا اس کو غیر مسلموں کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے 357فیصد زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ مسلمان کسی واقعے میں ملوث ہوں تو مغربی میڈیا میں 1051ہیڈ لائن اور غیر مسلم صرف 15ہیڈ لائنز میں جگہ پاتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہو چکا کہ عالمی میڈیا دانستہ طور پر دہشت گردی کو اسلام سے جوڑتا ہے۔ یہ سب کچھ اتفاق ہے نہ محض تعصب ۔بلکہ صدیوں سے اسلام دشمن سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ سوچ بلا تفریق جغرافیہ ،مذہب اور عالمی منظر نامے پر متحد ہے اور شریک کار بھی۔ امریکہ ہو، اسرائیل ہو یا بھارت عالمی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد و متفق دکھائی دیتی ہیں۔ امریکہ نیٹو ممالک کے اشتراک سے مسلم ممالک پر آتش و آہن برسا رہا ہے تو امریکی سرپرستی میں اسرائیل فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران اپنی طرف بڑھتے خطرے کے خوف سے آنکھیں بند کئے ہوئے انجام کے انتظار میں کانپ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے قتل عام پر نفرت کا لاوا بغاوت بن کر مگر گاہے بگاہے انتقام کی صورت میں ظاہر ہوتاضرور ہے تو اس کا نشانہ بھی کلمہ گو ہی بنتے ہیں ۔عالمی سامراج یہ صلیبی جنگ اپنے ممالک سے ہزاروں میل دور مسلمانوں کی سرزمین پر مسلمانوں کے ذریعے ہی لڑ رہا ہے۔ برصغیر پہلے ہی تنازع کشمیر کی وجہ سے جنگ کے دہانے پر تھا۔ ایک طرف عالمی سامراج نے عراق، افغانستان ،شام یمن کے بعد اپنا اگلا ہدف آبنائے ہرمز کو منتخب کیا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کے ذریعے بھارت کی تربیت نے بھی اپنا رنگ دکھناشروع کر دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور جغرافیائی تبدیلی میں کامیابی نے بھارت کو بھی کشمیر کی ڈیمو گرافی بدلنے کی شہہ دی ہے ۔بھارت کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے کشمیر ہڑپ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے تو ایک ریاست کے سربراہ کی رال کشمیر کی گوری عورتوں سے شادی کے لئے ٹپک رہی ہے۔مگر عالمی امن کے ٹھیکیداروں کو اسرائیل کا ریاستی جبر دکھائی دیتا ہے نہ بندوق کے زور پر کشمیریوں کا استحصال ۔ امن کے ٹھیکداروں کواسرائیل کا دہشت گردی کا برانڈ نظر آتا ہے نہ ہندوستان میں ہندتوا کی سوچ سے کوئی غرض۔ امن کا پرچارک مغرب سفید فام سپر میسی کے سحر میں گرفتار کمزوروں پر طاقت کا استعمال نہ صرف اپنا حق سمجھتا ہے بلکہ اسلام دشمنوں کے ساتھ مل کر صلیبی جنگوں کا احیاء بھی چاہتا ہے۔ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے محقق پال مارشل کے مطابق 9/11کے بعد عالمی برادری کو اسلامی دہشت گردی تو نظر آ رہی ہے مگر ہندو دہشت گردی کو امریکہ اور اس کے اتحادی مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ پہلے دنیا میں صرف ایک ملک اسرائیل ریاستی دہشت گردی میں ملوث تھا اب اسرائیل کی تربیت اور تعاون سے بی جے پی ریاست کی طاقت کو ہند توا کی سوچ کے فروغ کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ پال کے مطابق اسلامی دنیا میں ایران سعودی عرب مخاصمت کی صورت میں خوف کی فضا بنا کر اسلامی حکمرانوں کی توجہ کشمیریوں کی نسل کشی سے ہٹا دی گئی ہے۔ مودی گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد مرکز میں اقتدار میں آ کر بھارت کے 25کروڑ مسلمانوں کو ہندو مذہب قبول کرنے یا ہندوستان چھوڑنے یا پھر موت قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔آر ایس ایس کی پیداوار مودی کو ہندوستان میں ایک مسلم اکثریتی ریاست قبول نہیں، اس لئے کشمیریوں کی نسل کشی کے ذریعے کشمیر کی زمین حاصل کرنے کے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے ہندو فاشست آر ایس ایس کے غنڈے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ عالمی سرپرستی اور اسرائیل کی مدد کے خمار سے سرشار مودی سرکار مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے مگر جبر کے کھیت سے امن کے پھول نہیں نفرت کی جھاڑیاں اگتی ہیں۔