24-25فروری کو صدر ٹرمپ بھارت کا دو روزہ دورہ کرنے جارہے ہیں وہ گجرات اور دہلی میں جائیں گے۔ ممتاز ماہر نجوم پروفیسر غنی جاوید کا مطالعہ نجوم بتاتا ہے کہ صدر ٹرمپ طویل مدتی نحوست سے دوچار ہیں۔ ان کی نحوست کا یہ عہد 18نومبر 2019ء سے شروع ہو کر وسط نومبر 2020ء تک محیط ہوگا۔ پروفیسر موصوف کا ادراک یہ بھی ہے کہ نومبر 2020ء کے پہلے ہفتے میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کے مخالف حالات کافی زیادہ رب کائنات نے بنا رکھے ہیں۔ شاید وہ یہ انتخاب ہار جائیں گے یہی صدر ٹرمپ نیتن یاہو کو گزشتہ اسرائیل انتخاب سے پہلے شام کی گولان پہاڑیاں تحفہ میں دیکر انہیں اسرائیلی ملکیت قرار دے چکے تھے تب بھی چند ہفتوں بعد ہونے والا اسرائیلی انتخاب نیتن یاہو مکمل طور پر جیت کر حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ تبھی تو نیتن یاہو نے پھر سے تیسرے انتخاب کا راستہ مجبوراً اپنایا ہے۔ اب جبکہ اسرائیل میں بہت جلد پھر سے انتخاب متوقع ہیں تو صدر ٹرمپ نے پھر سے نیتن یاہو کو تحفہ دیا کہ اردن کا مغربی کنارہ اور کچھ فلسطینی زمین پر بھی اسرائیل کا قبضہ قانونی مان لیا تاکہ اسرائیلی یہودی عوام بھرپور طور پر نیتن یاہو کی فلسطین دشمن پالیسی سے خوش ہو کر اسے نئی حکومت سازی کا جمہوری استحقاق دے دیں۔ امریکہ کے سیاسی مدبرین اور مستقبل بین مفکرین نومبر 2020ء کے پہلے ہفتے والے صدارتی انتخابات کو امریکہ میں بنیادی اور اہم سیاسی تقسیم میں بہت زیادہ اضافے کا ممکنہ عنوان قرار دے رہے ہیں۔ ان مدبرین کے مطابق ماضی میں الگور جیت گئے تھے عوامی سطح پر مگر چکر بازی سے امریکی ڈیپ اسٹیس نے بش جونیئر کو صدر بنوانا تھا لہٰذا بش کو سپریم کورٹ سے جتوا دیا گیا تھا۔ الگور کے پاس عوامی استحقاق تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے ڈٹ جائے مگر امریکی سرزمین کو تقسیم سے محفوظ کرنے کے جذبے نے الگور کو مجبور کر دیا کہ وہ بش کو صدر مان لیں تاکہ امریکی ریاست اور سپریم کورٹ کی دو ٹوک تقسیم کا مرحلہ نہ آسکے۔ مگر یہ امریکی سیاسی شہ دماغ اور مفکرین خیال کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ الگور جیسا نہیں ہے بلکہ پھڈے باز ہے لہٰذا اس کا نومبر کے پہلے ہفتے کا صدارتی انتخاب بالکل متنازعہ ہوگا اور چونکہ عوامی سطح پر وہ بش کی طرح ہار جائیں گے مگر وہ مانیں گے ہرگز نہیں بلکہ اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لئے ہر ممکنہ تخریبانہ رویہ اپنائیں گے۔ یہاں سے ہی داخلی امریکی تقسیم جلوہ گر ہو جائے گی۔ لاہور مین مقیم میرے دیرینہ روحانی بزرگ مہربان کا استدراک ہے کہ بھارت اور امریکہ28مارچ 2020ء سے بدترین زوالی کی طرف جارہے ہونگے جبکہ 2025ء میں بھارت اور امریکہ کا 28مارچ2020ء سے دھیمے دھیمے شروع ہونے والا زوال بدترین زوال بلکہ انہدام کی علامت بھی دکھائی دیتا ہے۔ پروفیسر غنی جاوید کا استدارک ہے کہ 2020ء کا فروری بھارت کے لئے بھی بہت منحوس ہے۔ صدر ٹرمپ چونکہ خود بہت بڑی ذاتی نحوست ہیں اس لئے ان کا بھارت کا 24-25 فروری کا دو روزہ دورہ منحوس بن جائے گا جبکہ اس دورے میں طے ہونے والے معاہدے ناتمام‘ نامکمل اور تشنہ تکمیل ہی رہیں گے۔ بھارت کو ان معاہدوں سے وہ کچھ نہیں مل پائے گا جو کچھ نریندر مودی کا ہندو توا بھارت توقع اور امید رکھتا ہے۔ پروفیسر غنی جاوید کا استدراک یہ بھی ہے کہ بھارت تو پاکستان سے بھی زیادہ داخلی مشکلات اور مسائل سے دوچار ہے۔ پاکستان کو تو بنیادی طور پر معاشی مسئلہ ہے جبکہ بھارت کے اندر اگرچہ معاشی مسئلہ نہیں تاہم بھارت میں تہذیبی کشمکش‘ تمدنی و سیاسی تصادم نمودار ہوچکا ہے۔ فروری میں یہ بھارت کے اندر کا تہذیبی و تمدنی و سیاسی عدم استحکام صدر ٹرمپ اور امریکہ و دنیا کے لئے پیغام ہے کہ بھارت پر اب مکمل انحصار کرنا نامناسب ہوگا۔ پروفیسر غنی جاوید کا یہ بھی استدراک ہے کہ 2022ء میں کشمیر کے لئے آزادی کی فضا اور ماحول امر ربی کے طور پر طلوع ہونا ممکن انشاء اللہ دکھائی دے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نریندر مودی کو اسی منحوس ستارے نے گھیرے میں لے لیا ہے جس منحوس ستارے نے کراچی کے سیاسی حاکم بنے الطاف حسین کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ اگلے کئی سال یہ نحوست مودی کے ساتھ رہے گی۔ ماہرین نجوم کے مطابق انقلابی ایران (دلو شخصیت) کو بھی بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں جبکہ عربوں کو تو ایران سے بھی زیادہ مگر حیرت انگیز مشکلات درپیش ہیں۔ شخصی طور پر ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی عرب کے لئے نہایت بڑی مشکلات کا عرصہ جاری ہے۔ ریاست سعودی عرب لبرا شخصیت ہے۔ چین عمران خان کی طرح شخصیت رکھتے ہیں۔ چین کے لئے 14فروری سے مزید زیادہ مشکلات ہیں۔ لاہوری روحانی بزرگ کے مطابق چین کی حالیہ مشکلات تین سالہ مدت رکھتی ہیں۔ چینی پھیلائو رک چکا ہے۔ چین کو چاہیے کہ وہ ایغور مسلمانوں کے ساتھ اپنائے گئے ظلم و ستم کو ختم کرے اور چینی مسلمانوں کے ساتھ وہی ہمدردانہ حالات تخلیق کرے جو شاہ عبداللہ آل سعود کے عہد میں چینی مسلمانوں کو چین میں حاصل تھے۔ چینی انجینئرز نے مکہ مکرمہ میں ریل کار کا نظام وضع کیا تھا اور اس کام کے لئے شاہ عبداللہ کی خواہش پر چینی حکومت نے ان انجینئرز کو مسلمان ہونے کی اجازت دی تھی یہی پالیسی صدر شی اگر آج اپنالیں گے تو چین کو لاحق بیماریاں قابل علاج ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ پاکستان کا ارتقاء 2025ء میں واضح ہے۔ پس تحریر: پروفیسر غنی جاوید کے مطابق زحل اور پلوٹو اڑھائی ہزار سال پہلے نینویٰ اور بابل تہذیبوں کے خاتمے کا باعث بنے تھے اب پھر یہی زحل اور پلوٹو کا اکٹھا طلوع ہونا درپیش ہے۔ جبکہ نیپچون اس کا معاون بن رہا ہے۔ اوپر سے مشتری بھی موجود ہے ۔ یہ سب سیارے (امرربی) کو مظہر کائنات بنا رہے ہیں۔ 20دسمبر 2020ء کو مشتری اور زحل کا (قِران) ہو جائے گا اور 11اگست1999ء کو مشتری و زحل (قِران) کے سبب ٹون ٹاور کا حادثہ اور 1979ء میں انقلاب ایران آیا تھا۔ ایسا ہی واقعہ 20دسمبر کے اردگرد دوبارہ نمودار ہونا ممکن ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)