اسرائیلی لڑاکا طیاروں اور آرٹلری کی گولہ باری سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زاید ہو گئی ہے۔ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں‘ بچے اور بچیاں بڑی تعداد میں نشانہ بن رہے ہیں‘فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔بے چارگی کی ایک نا ختم ہونے والی صورتحال ہے جس میں عالمی بے حسی کے شکار معصوم لوگوں کا لہو بہہ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی کسی تنظیم کو ہوش آیا نا اقوام متحدہ میں جھٹ سے قرارداد منظور کرنے والے متحرک ہوئے ۔ بیت المقدس کے ایک محلے سے چند فلسطینی خاندانوں کو بیدخل کر کے ان کی املاک غاصب یہودیوں کو دینے سے شروع ہونے والا تنازع اسرائیل کی ہٹ دھرمی سے اس وقت مزید تشویشناک صورت اختیار کر گیا جب رمضان المبارک کے آخری عشرے میں افطار کے بعد مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لئے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی پولیس نے حملہ کر دیا۔اس حملے میں ڈھائی سو فلسطینی مسلمان زخمی ہوئے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی بہیمانہ کارروائیاں پچھلے ایک ہفتے سے جاری ہیں‘بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر چونکہ اسرائیل نواز حلقوں کا تسلط ہے اس لیئے جب خبر جاری کرنا مجبوری ہوا اور مظالم کو چھپانا ممکن نہ رہا تو اسرائیلی کارروائیوں کو حق دفاع بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ بی بی سی‘ سی این این اور دوسرے بڑے ٹی وی چینلز پر اسرائیلی حملے کی رپورٹنگ معمول کی سرگرمی بنا کر پیش کی جا رہی ہے۔ اس رپورٹنگ کا افسوسناک پہلو ہے کہ فلسطینیوں کی عبادت گاہوں اور رہائشی عمارات کو تباہ ہوتے دکھایا جا رہا ہے لیکن فلسطینی باشندوں کا موقف پیش نہیں کیا جا رہا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اسرائیل جیسے طاقتور ملک کو امریکہ‘ فرانس اور مغربی دنیا کی مکمل حمایت حاصل ہے لیکن نہتے اور اپنے حق کے لئے کھڑے ہونے والے فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی سامنے نہیں آ رہا۔ اگر کوئی فرد یا گروپ فلسطین کی آزادی کی بات کرتا ہے تو اسے مغربی ممالک کی طرف سے پابندیوں اور دہشت گردی کی حمایت کے الزام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک دوہرا معیار اور دوغلا پن ہے جو نام نہاد مہذب دنیافلسطینیوں کے حوالے سے اپنائے ہوئے ہے۔ ہفتے کے روز امریکہ کے نمائندہ خصوصی ہادی امر فلسطین و اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لئے اسرائیل پہنچے ہیں۔ ہادی امر کوئی زیادہ اثر و رسوخ والے سفارتکار نہیں‘اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ جنگ بندی کے معاملے پر کس قدر سنجیدہ ہے۔ ہادی امر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل دونوں طرف پائے جانے والے تحفظات کو سن کر امریکی حکام کو آگاہ کریں گے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نمائندہ خصوصی کے دورے کا مقصد پائیدار امن کے قیام کیلئے کوششیں موثر بنانا ہے۔ یہ صرف امریکہ نہیں جو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کر رہا ہے بلکہ سلامتی کونسل کا دوسرا رکن فرانس بھی اسی طرح کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ فرانس خود کو انسانی حقوق اور آزادیوں کا چیمپئن بنا کر پیش کرتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو فرانسیسی حکومت اس حد تک مقدس قرار دیتی ہے کہ مسلمانوں کے مقدس شعائر کی توہین بھی روا سمجھی جاتی ہے۔فرانس اور دیگر یورپی ممالک اس ضمن میں ایک قرارداد پاکستان سے تجارتی تعلقات ختم کرنے کی بابت منظور کر چکے ہیں ۔ اسرائیل کی نہتے فلسطینیوں پر حملے کے معاملے پر انصاف پسند شہریوں نے دنیا کے ہر ملک میں احتجاج کیا۔ حتیٰ کہ اسرائیل اور امریکہ میں کچھ یہودیوں نے بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کئے اور ان مظالم کی مذمت کی لیکن فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔فرانس کو خدشہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے عالمی رابطے مضبوط ہوں گے اور مغرب کی سماجی اقدار خطرے کا شکار ہو جائیں گی، کس قدر خود غرضانہ سوچ ہے ۔یقینا مفادات اور دو عملی کی شکار مغربی قوتیں انصاف اور انسانی ہمدردی کی جگہ اس بار بھی اغراض کو ترجیح دیتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کے پلڑے میں وزن ڈال سکتی ہیں۔ فلسطین پر اسرائیل کے حملوں نے ان مسلمان ریاستوں اور ان کی حکومتوں کے لئے شرمندگی اور تشویش کا سامان کیا ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی و کاروباری تعلقات استوار کرنے کا معاہدہ کر چکی ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک تقسیم نظر آ رہی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین میں آباد قدیم یہودی گھرانے فلسطینیوں پر حملوں کے خلاف ہیں۔ اسرائیل کے اندر ایسے ہنگامے شروع ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں عرب یہودی اور فلسطینی مسلمان آباد کار مشترکہ طور پریہودیوں سے ٹکرا رہے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والی مسلم ریاستوں کے عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ لڑائی فوری طور پر نہ رکی اور فلسطینیوں کے زخموں پر مستقل حل کا مرہم نہ رکھا گیا تو فلسطین کا تنازع پورے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی عوامی تحریک کو ابھارنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ مسلمان ممالک کا اب تک فلسطین کی صورت حال پر ردعمل ناکافی ہے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے‘ پاکستانی حکام نے ترک انڈونیشین اور ایرانی حکام سے تبادلہ خیال کیا ہے‘ پوری امت مسلمہ کو ایک جاندار اور موثر موقف کی ضرورت ہے۔ بحران کے وقت 57مسلم ممالک اگر کوئی موثراور مشترکہ موقف نہ اپنا سکے تو ان کی سیاسی‘ دفاعی اور معاشی حیثیت مزید حقیر ہو جائے گی۔