مثل ہے۔ منہ کھائے‘ آنکھ شرمائے۔ جب آپ کسی سے مال لیتے ہیں۔ فائدے اُٹھاتے ہیںتو اس کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ اُسکی بات ماننا ہوتی ہے۔ پاکستان کی ریاست انیس سو پچاس کی دہائی سے آج تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے خطیر عطیات و قرضہ جات وصول کرتی آرہی ہے۔ بدلہ میں تابعداری کرتی رہی ۔اب امریکی حکام نے ہمارے واشنگٹن میں تعینات سفیر کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ عمران خان وزیراعظم رہے تو خطرناک نتائج بھگتنا پڑیں گے ۔ یہ کونسی نئی بات ہے۔جو قومیں مانگ مانگ کر کھانے کی عادی ہوں اُن سے بڑے ملک ایسا سلوک کرتے ہیں۔ ایک بیرون ملک سے آیا ہوا دھمکی آمیز خط زیرِ بحث ہے۔ حکومت نے عوام کوکھل کر نہیں بتایا کہ نامہ کس ملک سے آیا لیکن وفاقی وزراء کو چٹھی دکھائی گئی ۔ پڑھ کر سنائی گئی۔میڈیا تک بات پہنچ ہی جاتی ہے۔ پتہ چلا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کو امریکی دفتر خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ) میں طلب کیا گیا ۔امریکی انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا (نائب وزیر خارجہ) نے ان سے باقاعدہ‘رسمی بات چیت کی ۔ اس گفتگو کی روداد (منٹس) قلمبند کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ روس پر امریکیوں نے خفگی کا اظہار کیا۔ کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ یہ تنہا وزیراعظم کا فیصلہ تھا۔مطلب‘ اس اقدام میں ریاست کے دیگر لوگ ‘ ادارے شامل نہیں تھے۔ نائب وزیرخارجہ نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم کے عہدہ پر برقرار رہے تو پاکستان کو خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اگر ان کے خلاف عدم ا عتماد کامیاب ہوگئی توپاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ملاقات کا احوال ہمارے سفیر نے ایک خفیہ مراسلہ کی صور ت میںحسب ِدستور اسلام آباد روانہ کیا۔ وزیراعظم نے ستائیس مارچ کے جلسہ میں اس کا ذکر کیا لیکن مکمل مندرجات نہیں بتائے۔ ان کا موقف تھا کہ بیرونی مداخلت کے ذریعے ان کی حکومت گرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ عدم اعتماد کی تحریک بیرونی ایما پر لائی گئی ہے۔ اسے بیرونی طاقتوں کی مدد حاصل ہے۔ افواہیں گردش میں ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے بھاری رقم خرچ کی ہے تاکہ ارکان کی خرید و فروخت کی جاسکے۔ تاہم ایسی باتوں کا کبھی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔انٹیلی جنس آپریشن ہمیشہ خفیہ رہتے ہیں۔ امریکہ کی طویل تاریخ ہے کہ وہ دنیا میں حکومتیں تبدیل کرواتا رہاہے۔ دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ انکل سام خود کو دنیا کا سردارسمجھتا ہے۔سرپرست ِاعلیٰ۔اس کا بزعم ِخود حق ہے کہ دُنیا کے جس ملک میں چاہے اپنی مرضی کی حکومت لائے۔ سی آئی اے کوقانونی طور پر مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ جس انسان کو امریکہ کے لیے خطرہ تصور کرے اُسے قتل کرسکتی ہے۔خواہ اس سے امریکی سلامتی کو خطرہ نہ ہو لیکن اس کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔اُنیس سو ترپن میں امریکہ نے ایرا ن میںقوم پرست وزیراعظم محمد مصدق کا تختہ الٹوایا۔ ایرانی فوج میں اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرکے بغاوت کروائی۔ مصدق کا قصور تھا کہ انہوں نے برطانیہ کی کمپنیوں کو بے دخل کرکے ایران کے تیل کے وسائل کو قومی ملکیت میں لیا تھا۔ ان ملکوں کی ایک طویل فہرست ہے جہاں واشنگٹن حکومتیں الٹواتا رہا۔ خاص طور سے وسطی‘ لاطینی امریکہ کے ملکوں میں جنہیں امریکہ اپنا پچھواڑا سمجھتا ہے۔ اُن کی خود مختاری کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ جنوبی کوریا‘ فلپائن‘ گوئٹے مالا کانگو‘ جنوبی ویتنام‘ ڈومینیکن ری پبلک‘ برازیل ‘ چلی میں سی آئی کی مدد سے حکومتیں بدلوانا تاریخی ریکارڈ پر ہے۔اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ایک معروف کتاب کا عنوان ہے۔ گمشدہ صلیبی سورما۔سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم کالبی کی خفیہ جنگیں۔حال میں امریکہ ترکی کے صدر اردوان کا تختہ الٹوانے کی قریب تھا کہ عین وقت پر رُوسی حکام نے انہیں آگاہ کردیا۔ منصوبہ ناکام بنادیا گیا۔ پاکستان میں امریکی مداخلت انیس سو پچاس کی دہائی سے شروع ہوگئی تھی۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں اتحادی بن چکا تھا۔ ہمار ی ریاست کے اعلیٰ حکام کے امریکیوں سے روابط بڑھ گئے تھے۔ انہی میل ملاقاتوں میںطے پایا کہ پاکستان میں سویلین سیاسی نظام کی بساط لپیٹی جائے۔جنرل ایوب خان کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس بل پر انہوںنے پارلیمان کے بنائے ہوئے ملک کے پہلے آئین کو منسوخ کرکے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ ایوب خان کو اتنی امریکی امداد ملی جس سے انہوں نے معاشی استحکام قائم کیا ۔ اسلیے عوام الناس ان کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ نے ایوب خان کی پوزیشن کمزور کردی اور معیشت کو نقصان پہنچایا۔ورنہ ان کا ستارہ عروج پر رہتا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم بنانے پر کام شروع کیا تو امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے انہیں دھمکی دی ’ہم تمہیں عبرت ناک مثال بنادیں گے۔‘ بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اُنہیں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ ہر دور میں پاکستان کے ریاستی اداروں اور ہر شعبہ زندگی میں امریکہ کے مخبر اور کارندے موجود رہتے ہیں۔ بعض کاریگروں نے سوشلزم کا لبادہ اوڑھے رکھا تاکہ دنیا انہیں پہچان نہ پائے۔ اسی لیے انکل سام مکمل اعتماد سے حکمرانوں کو دھمکی دیتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناسکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے شریک کار تھے لیکن روسی افواج کی واپسی کے بعد وہ خطّہ میں پاکستان‘ افغانستان اور ایران کے اشتراک پر مبنی ایک بلاک ‘ کنفیڈریشن بنانے کے منصوبے بنارہے تھے۔ مرد آہن کو طیارے کے پُراسرارحادثہ میں موت کے گھات اتروادیا گیا۔ کوئی آزادانہ‘ خود مختاری کی سوچ رکھنے والا حکمران دنیا کے چودھری کو پسند نہیں۔ آج کا پاکستان اس خطہ میں امریکی مفادات کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو زمینی طور پر امریکہ کے سب سے بڑے حریف چین کے ساتھ متصل ‘منسلک ہے۔ اگر امریکہ کبھی چین کا بازو مروڑنے کی خاطر اس کے مغرب میں واقع ساؤتھ چائنہ سمندر کا راستہ بند کرے تو چین کے پاس پاکستان کی بندرگاہوں سے ہنگامی تجارت کاراستہ کھلا رہے گا اور زمینی راستہ افغانستان اور وسط ایشیا کے ذریعے یورپ سے جوڑ دے گا۔ چین کے اس متبادل تزویراتی راستہ کو صر ف اسی صورت بند کیا جاسکتاہے جب پاکستان میں امریکہ کی پٹھو حکومت قائم ہو جو اس کی مرہونِ منت ہو۔اس کی دست نگر ہو۔ ہمارے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں میں امریکیوں کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ ہماری کمزور معیشت ہمیں امریکہ کا محتاج بناتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارا بے ہمت‘ خود غرض حکمران طبقہ۔ اشرافیہ کے ذاتی مفادات امریکہ سے وابستہ ہیں۔ عام لوگ ہر سختی برداشت کرنے کے عادی ہیں۔ امیر اور اپر مڈل کلاس امریکی عنایات کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ان کی جائدادیں‘ کاروبار امریکہ‘ کینیڈا میں ہیں۔ ان کے بچے امریکہ کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ اس لیے عمران خان نے ماسکو کا دورہ کرکے ‘ صدر پیوٹن کو پاکستان آنے کی دعوت دے کر بڑا پنگا لے لیا۔امریکہ اور یورپ روس کا مقاطعہ کرچکے ہیں۔ عمران خان چودھری صاحب کے دشمن سے پینگیں بڑھانے لگے۔ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔