بطور وزیر داخلہ کشمیر کی صورت حال تو امیت شاہ کیلئے چیلنج ہوگی، مگر کشمیریوں کیلئے بھی ان سے نمٹنا ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں اور افسروں کی کشمیری راہنمائوںکے ساتھ ملاقاتوںپر پابندی لگانے کے بعد مودی حکومت کی اگلی کوشش مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہوگی۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی بھی اپنا نام امرکروانے کے لئے کشمیر کو پوری طرح بھارت میں ضم کروانا چاہتے ہیں۔کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ امیت شاہ ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس پلان کا کوڈ نام مشن 44 ہے اور اس کے تحت نو کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں اور بدھ اکثریتی ضلع لیہہ کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوںکے ووٹوں کی زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن کرواکر ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امیت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوںکو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی 86 نشستیں ہیں جن میں سے 37جموں، 45 وادی کشمیر اور4 لداخ خطے سے ہیں۔ بی جے پی جموں،کھٹوعہ یعنی خالص ہندو پٹی کی سبھی نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بی جے پی متنازع خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان اورکانگریس کے ہندوارکان کی مدد سے بھارتی آئین کی دفعہ 370کو ختم یا اس میں ترمیم کروائی جا سکتی ہے۔1954ء اور1960ء میںکشمیر اسمبلی نے اس شق میں ترمیم کی سفارش کی تھی جس کے بعد بھارتی صدر نے ایک حکم نامے کے ذریعے بھارتی سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کادائرہ کشمیر تک بڑھادیاتھا اور ریاست کے صدراور وزیر اعظم کے عہدوںکے نام تبدیل کرکے بالترتیب وزیراعلیٰ اورگورنرکر کے انہیں دوسرے بھارتی صوبوں کے مساوی بنادیاتھا۔جموں کشمیر کے انتخابی نقشہ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی 37نشستوں میں 18 حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں 9 ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے، یہاں پرامیت شاہ وہی فارمولہ اپنانے کیلئے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اتر پردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کوبے اثر بنایا جائے، جبکہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یکجا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بدھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے ، تاکہ آئندہ اسمبلی میںزیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے وادی کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔ پچھلے الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرح یہ کہنا شروع کیا تھاکہ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہو سکتی ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جراٗت کی تھی۔ لاہور اعلامیہ، اسلام آباد ڈیکلریشن اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اس کے بعدمزاحمتی خیمے سے لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔ مگر جو اشخاص اِس امید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ'' انسانیت کے دائرے ‘‘میں بات ہوگی انہیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال 1999ء اور 2004ء کے مقابلے خاصی مختلف ہے۔ایسے حالات میں کشمیر مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی امید رکھنا بے معنی ہے ۔ امیت شاہ کے وزار ت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد تو کشمیر کی شناخت اور تشخص ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر کی مختلف الخیال پارٹیوں کو فی الحال اسکے بچائو کے لئے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیرکی سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے بھاگ رہی ہیں،بلکہ یہ لوگ نریند ر مودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی بچی کچی قوت ِمزاحمت جواب دے بیٹھتی ہے۔ بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کی بجائے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال بد قسمتی سے اس جماعت کا یہ محور بنا ہواہے کہ اقتدار کی نیلم پری سے بوس وکنا رکو بر قرار رکھنے کیلئے کس سے رشتہ جوڑا جائے کس سے ناتہ توڑا جائے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے تئیں ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دور کی بات ہے ،فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے اس کا توڑ کرنے میں این سی ،پی ڈی پی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غمخوار پاکستان کی داخلی صورت حال بھی دلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لئے راستہ ہموار اوروقت شاید موزوں ہے۔ (ختم شد)