تبدیلی دبے پائوں آتی ہے۔ ایسی تبدیلی جو دیرپا اور دور رس ہو۔ انقلاب دھوم دھڑکے سے آتا ہے۔ تخت کو گرا کے اور تاج کو اچھال کے آتا ہے۔ ایک جہاں کو تہہ و بالا کر کے اور ایک نظام کے بیخ و بُن کو اکھاڑ کے آتا ہے لیکن زندگی کے معمول پہ آتے ہی اس انقلاب کو بھی گھن لگ جاتا ہے اور حکومت و اقتدار کی لذت ‘ انسانوں کو محکوم بنانے کی ہوس ہی دیکھے گئے خواب کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور آخر آخر کو پتا چلتا ہے کہ ایک ظالم کی جگہ دوسرے ظالم نے لے لی۔ بھلائی اور فلاح کے نام پہ غلامی کا ایک نیا خوش نما طوق انسانوں کی گردن میں ڈال دیا گیا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی قدیم و جدید زمانے میں انقلابات آئے ان کا یہی حشر ہوا۔ اس انجام پہ غور کیا جائے تو انقلاب کے مقابلے میں تبدیلی ہی احسن ٹھہرتی ہے۔ بے شک تبدیلی آہستہ رو ہوتی ہے۔ انسانی دکھوں اور المیوں کو دور کرنے میں وقت لیتی ہے مگر جب آ جاتی ہے تو پھر رخصت نہیں ہوتی۔ وہ آہستہ آہستہ معاشرے میں اور خو درعیت میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے۔ وہ نظام کو گلے سڑے نظام کو یکلخت دھکے دے کر اور گرا کر نہیں آتی۔ بتدریج اصلاح اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر‘ پچھلی حماقتوں اور فرو گزاشتوں کو درست کر کے آتی ہے۔ اس لیے ایک بار جب آ جائے تو اس کی مثال شاخ پر کھلنے والے اس خوش نما پھول کی طرح ہوتی ہے جو کلی سے پھول بنتا ہے۔ یہ ارتقائی عمل نظام فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ کائنات میں بھی ارتقا کا ہی قانون کام کر رہا ہے۔ خزاں کے بعد بہار آتی ہے اور رات کے آخری پہر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہی کے بطن سے صبح کا اجالا پھوٹتا ہے اسی لیے جب بھی کوئی مملکت عزیز کے مستقبل سے حال کی اتھل پتھل کو دیکھ کے مایوسی کا اظہار کرتا ہے یہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مایوسی کیسی‘ حالات جتنے دگرگوں جتنے ناقابل اصلاح نظر آتے جاتے ہیں‘ میری امید اور خوش گمانی بڑھتی جاتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ شدید مایوسی اور ناامیدی کے بڑھتے ہوئے سایوں میں امید کیسی؟ میں عرض گزار ہوتا ہوں کہ تاریخ کا مطالعہ تو اسی امر کا شاہد ہے کہ قومیں پاتال میں گر کر انحطاط اور زوال کی آخری منزل سے ہی ابھری ہیں۔ زوال و عروج کی یہ کہانی قوموں کی تاریخ میں نئی نہیں۔ یہ قانون قدرت ہے کہ نہ عروج کوئی مستقل قدر ہے اور نہ زوال ہی کو ہمیشگی ہے۔ یونانی‘ رومی‘ ایرانی‘ مسلمان‘ انگریز ان ساری قوموں اور ملتوں نے باری باری دنیا پر صدیوں تک اپنی حکمرانی کا جھنڈا گاڑے رکھا۔ فوجی فتوحات تمدنی و تہذیبی غلبے کا ذریعہ بنیں لیکن اپنا اپنا وقت پورا کر کے یہ ساری اقوام طارق نسیاں ہوئیں۔ اب اگر آج مغرب اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے جڑی جمہوریت کا ہر طرف غلبہ و چرچا ہے تو اس میں بھی آثار کہنگی و شکست و ریخت کے نظر آنے لگے ہیں۔ وجد کچھ اور نہیں سبب بس یہی ہے کہ انسانیت کے دکھوں کا درماں نہ سرمایہ داری ہی سے ممکن ہوا ہے اور نہ اس جمہوریت سے۔ عام آدمی کی حکمرانی کی آڑ میں ایک خاندان یا ایک مافیا ہی کا جبر و تسلط ہے۔ فرد ریاست کے مقابلے میں آج بھی بے بس و بے آسرا ہی ہے۔ میڈیا ہو یا معیشت‘ مالیاتی ادارے ہوں یا عوامی نمائندگی کے ادارے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں سب پر دولت مندوں اور تونگروں ہی کی اجارہ داری ہے۔ جنہیں عام آدمی کے دکھوں ‘ اذیتوں‘ کلفتوں اور پریشان حالیوں کا درد بھرا احساس ہی نہیں قدرت اپنے بندوں کی بے بسی‘ ناراجتی اور غلامی و بدترین افلاس و غربت کا تماشا خاموشی سے بہت دنوں نہیں دیکھتی آہستہ آہستہ قانون قدرت حرکت میں آ کر اس نظام کو لپیٹ کر ایک نیا صالح اور بہتر نظام اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ مملکت عزیز میں بھی آج جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ تعمیر و تخریب ساتھ ساتھ معروف کار ہیں۔ جہاں تخریب کی حشر سامانیاں اور تباہ کاریاں ہیں۔ وہیں اس تخریب کی روک تھام کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے‘ چاہے یہ عمل کلیتاً شفاف نہ ہو۔لیکن وہ جو زمین پر خدا بنے بیٹھے تھے اور اختیار و اقتدار کی زیادہ سے زیادہ ہوس نے جنہیں عقل و خرد اور ہوش مندی سے بھی محروم کر دیا تھا انہیں اچھی طرح جتلا دیا گیا کہ بے بسی اس طرح تمہارا مقدر بنتی ہے کہ خود تم بھی سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہو اور دوسروں سے پوچھتے پھرتے ہو کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور اگر یہ فقرہ تم نے اپنی مظلومیت کا چرچا کرنے اور اپنی بدعنوانیوں کو چھپانے اور توجہ کو اصل معاملے سے ہٹانے کے لیے گھڑا تھا تو نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام سادہ دل ہو سکتے ہیں احمق و نادان ہرگز نہیں۔ انہوں نے جمہوری اور خاکی حکمرانوں کو بھگتا ہے اور بھگتنے کی یہ مدت بھی ستر برس ہونے کو آتی ہے۔ انہوں نے شرابیوں کی حکومت بھی دیکھی ہے اور نمازیوں کی حکمرانی کا مزہ بھی چکھا ہے۔ نجات انہیں دونوں سے نہ ملی۔ عام آدمی غریب و مفلس آدمی کی حالت پہلے سے ابتر اور بدتر ہی ہوئی ہے۔ نعروں اور جھوٹے وعدوں سے بھی کبھی خلق خدا کو نجات ملی ہے؟ اب تو فقط یہی دعا ہے کہ ان کھوکھلے نعروں اور خوش نما دھوکے باز منشوروں سے جان چھوٹے اور قوم کو کوئی ایسی قیادت ملے جس کا دل درد مندی اور جواب دہی کے احساس سے معمور ہو۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ بہترین تدبر و تدبیر سے آراستہ وژن کی حامل جدید دنیا کے معاملات اور انتظام و انصرام کی نزاکتوں سے پوری طرح واقف‘ خود اپنے معاشرے اور اپنے لوگوں کے نفسی و نفسیاتی امراض اور کمزوریوں پر جس کی نظر ہو اور جسے معلوم ہو کہ ان کی شفا اور علاج کیسے ممکن ہے؟ پوری طرح فعالیت اور سرگرمی نیز جوش و جذبے سے عبارت اور اذہان ہی اقتدار پہ آئیں گے تو اس قوم کو جو اپنی صلاحیتوں اور اوصاف کے اعتبار سے پیدا ہو کر بھی پتھر ہی ہے‘ اس پتھر کو صیقل کر کے کیسے چمکتے دمکتے ہیرے کی شکل دی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت سے واقف کاروں ہی سے نجات ممکن ہے۔ مگر ارتقائی عمل کے ذریعے ارتقائی عمل جو آہستہ رو ہوتا ہے اتنا آہستہ کہ بسا اوقات مایوسی اور ناامیدی لوگوں کے اندر کنڈلی مار کے بیٹھ جاتی ہے۔ یہی محسوس ہونے لگتا ہے کہ اپنے اجداد کی طرح بدنصیبی و بدبختی ہی ہمارا مقدر ہے اور اچھے دن کبھی نہ آئیں گے۔ وہ دن جب مظلوم کو انصاف ملے گا اور بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب ہو سکے گا۔ ہاں جب ہر طرف بدعنوانیوں‘ بدمعاملگیوں کا شور و غوغا ہو۔ جب وزیروں اور سفیروں کے گھروں سے کڑ کڑاتے کرنسی نوٹوں کے انبار اور سونے چاندی کے نولکھے ہار برآمد ہوں اور چار اطراف ہا ہا کار ہی ہو تو محروم و مفلس امید کا دامن تھامے تو کیسے اور آس بھری نگاہ سے دیکھے تو کس طرف۔ یہ سارے احساسات اپنی جگہ بجا اور درست لیکن میڈیا دکھانا چاہے تو دکھا سکتا ہے کہ غریب بستیوں میں سکول کھولنے تعلیم پھیلانے اور غربت و افلاس کو مٹانے کے لیے سینکڑوں تنظیمیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ ان میں ایسے نوجوان بھی ہیں جو امریکہ اور یورپ سے اپنے محفوظ کیریر کو ترک کر کے مملکت عزیز میں آئے حب وطن کے جذبے سے سرگرم عمل ہیں۔ ان بے غرضی سے کام کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ میری ساری امیدیں ان ہی نوجوان لڑکے لڑکیوں سے وابستہ ہیں۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔