غربت پاکستان کا ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ کہ اکثر لوگوں کے پاس محدود اقتصادی وسائل ہیں اور ان کا معیار زندگی کم ہے۔ عوام تعلیم ، صحت ، مواصلات، اچھی خوراک اور جدید سہولیات سے محروم ہو ہیں۔ ایسے لوگ آمدنی کے وسائل کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔کیونکہ وہ اپنی آمدنی کے وسائل بڑھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ لوگ آگے بڑھنے والے لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ترقی کے طریقے نہیں سمجھتے۔پاکستان میں عدم مساوات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ2020 میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دو حصوں میں بٹا ہوا ہے ایک طرف نسل در نسل دولت کی ریل پیل میں زندگیاں گزارنے والا طبقہ ہے تو دوسری جانب وہ لوگ جنہیں صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ملک میں کارو باری شعبہ لا تعداد مراعات سے مستفید ہو رہا ہے امیر طبقے کی آمدن اوسط غریب گھرانوں سے کہیں زیادہ ہے جبکہ غریب طبقے کو زندگی گزارنے کیلئے پہاڑ جیسی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ یہ کہنا حق بے جا نہ ہو گا کہ21 کروڑ کی آبادی والے ملک میں غریب طبقے کو معاشی ترقی کے ثمرات نہیں مل رہے، پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں پچھلے 73 سالوں میں غربت میں غیرتسلی بخش مگر بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، مگر حالیہ اعداد و شمار اب بھی تشویش کا باعث ہیں۔ 2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3 فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبو ر تھے۔ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی، ان مایوس کن اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31.4 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، خیبر پختونخوا میں 49 فیصد اور بلوچستان میں خوفناک 71 فیصد ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہات میں بستی ہے،ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم، صحت اور زندگی بسر کرنے کے لیے بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق کرونا وبا کی وجہ سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں غربت پچھلے نو سالوں کے مقام پر واپس آ سکتی ہے۔پاکستان کے لیے، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے اور ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، یہ بات بھی کم تشویش ناک نہیں کہ اگلے سال کے دوران بھی ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح جنوبی ایشیا میں بہت کم رہنے کی توقع ہے۔ وہ دو ممالک جہاں اقتصادی ترقی کی شرح کے حوالے سے حالات ممکنہ طور پر پاکستان سے بھی برے رہیں گے، وہ افغانستان اور سری لنکا ہوں گے۔ حکومت اپنے طور پر ملکی اقتصادی صورت حال میں بہتری کی کوششیں کر تو رہی ہے لیکن یہ کاوشیں بظاہر بہت کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہیں ،ایک جانب تو پاکستان میں کارو بار ترقی بھی کر رہا ہے اور پھل پھول بھی رہا ہے پاکستان کے کار پوریٹ سیکٹر نے منافع کے تمام ریکارڈ توڈ دیے ،پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا ریکارڈ دیکھیں تو لگتا ہے کہ کمپنیاں منافع کما رہی ہیں، سیمنٹ،آئل اینڈ گیس،آٹو سیکٹر ،ٹیکسٹائل سیکٹر جتنے بھی کارو باری ادارے ہیں سہ ماہی بنیادوں پر جو انکے تنائج ہیں، اس میں ان سب سیکٹر نے ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ تمام سیکٹر نے توقعات سے بڑھ کر پر فارم کیا ہے اس مالی سال جولائی سے ستمبر کے دوران 100 انڈیکس میں شامل تمام انڈسٹریوں کا مجموعی منافع2020 کے مقابلے میں21فیصد زیادہ رہا اور اگر اس سال کے پہلے 9 ماہ میں دیکھا جائے تو ان کمپنیوں نے مجموعی طور پر 751 ارب روپئے منافع کمایا ہے جو 2020 کے مقابلے میں59 فیصد زیادہ ہے اور 2019 کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد زیادہ ہے ۔کسی بھی کارپوریٹ سیکٹر کیلئے یہ بہت زبر دست منافع ہے اس سے لگتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہے،اس کی وجہ ڈیمانڈ کا زیادہ ہونا ہے جو کوویڈ کے دنوں میں معاشی سر گرمیاں متاثر ہونے سے کمزور پڑ چکی تھیں۔ ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق جنوری تا ستمبر2021کی مختلف سیکٹر کا منافع دیکھا جائے تو سب سے زیادہ تیزی انجینئرنگ سیکٹر میں دیکھنے میںآئی جس کا منافع 2020 کے مقابلے میں2400 فیصد بڑھ گیا اس کے بعد دوسرے نمبر پر ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن سیکٹر رہا جن کے منافع میں586 فیصد اضافہ ہوا ۔ٹیکسٹائل کمپوزٹ سیکٹر کا منافع میں بھی500 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اس کے علاوہ جن شعبوں میں زیادہ منافع دیکھا گیا ان میں کمر شل بینک نے195 ارب روپے منافع کمایا،تیل و گیس کمپنیز نے 162 ارب رو پے اور کھاد مینو فیکچرر نے74 ارب روپے کا منافع کمایا۔ آئل مارکیٹین کمپنیوں نے39 ارب سیمنٹ مینو فیکچرر نے 37 ارب جبکہ بجلی گھروں نے33 ارب منافع کمایا ایک طرف تو کمپنیوں کے منافع ریکارڈ تو ڑ رہے ہیں لیکن دوسری جانب امیر اور غریب میں فرق بڑھتا جا رہا ہے ،کمپنیوں کے منافع تو بڑھ رہے ہیں لیکن تنخواہوں میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہو رہا جس پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کے بزنس بڑھ رہے ہیں وہ اپنے ملازمین کوبھی فائدہ دیں۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 56.6 آبادی فیصد کرونا وبا کے بعد اس وقت سماجی اور معاشی خطرات میں مبتلا ہے۔ غربت کی لکیر سے قدرے اوپر ہونے کے باوجود یہ آبادی غربت کے بہت قریب آ گئی ہے اور اپنی قلیل اور مزید کم ہوتی ہوئی آمدنی اور بڑھتے ہوئے افراط زر سے اپنے خاندان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔پچھلے دو برسوںمیں بڑھتے ہوئے افراط زر خصوصا اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں، غربت میں اضافے کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹیکس جمع کرنے کے موجودہ فرسودہ نظام کی وجہ سے ریاست کو ضروری وسائل مہیا نہیں ہو پاتے جن کی وجہ سے مختلف فلاحی منصوبوں اور سماجی شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی۔ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہمارے 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی، گیس، موبائل فون، پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیا پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ امیر ترین طبقہ صرف 5 فیصد کے قریب ٹیکسوں کی صورت میں ادائیگی کرتا ہے۔اس غیر منصفانہ نظام میں اصلاحات، جن میں غریبوں پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہو، سے غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کے لیے زندگی بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جا سکتے ہیں۔غربت میں کمی پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے جلد ہی ہم ایک پرتشدد سماجی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔