امیر خسرو بے پناہ جدتوں،حدتوںاور شدتوں کا مارا ہوا شاعر تھا، اس نے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا اور شاید یہ چاروں صفات اس نے انھی سے درجہ بدرجہ اخذ کیں۔ خسرو کی شدتوںاور حدتوں کو تو ہم پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، فی الحال ان کی چند جدتوں پہ بات ہو جائے۔ آپ ذرا ان کا روا روی میں کہا گیا یہ فرمائشی شعر دیکھیے اور پھر اس کے تناظر میں اپنی الگ وطن حاصل کرنے کی جدو جہد سے لے کے گزشتہ پون صدی کی سیاسی بلاد کاری کو اس کے اوپر عین مین پرکھ لیجیے، فرماتے ہیں : کھیر پکائی جتن سے ، چرخہ دیا جلا/آیا کتا کھا گیا ، تو بیٹھی ڈھول بجا پھر محبت یا کاروبار کے سلسلے میں در آنے والی زبانوں کی اجنبیت کے حوالے سے جس خیال، احساس، المیے یا کیفیت کو انھوں نے سات آٹھ سو سال قبل شعر کا قلبوت عطا کر دیا تھا،ہمارانہیںخیال کہ اس صورتِ حال کو آج تک اس سے بہتر انداز میں بیان کیا گیا ہو، ارشاد ہوتا ہے: ؎ زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم/چہ خوش بودی اگر بودی زبانش در دہانِ من ’زبانش در دہانِ من‘ میں لَوٹنیاں لیتی ذو معنویت کی داد کو تو ہم پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ یہ اکیلی ترکیب ہماری پوری ایہام گوئی کی تحریک پر بھاری ہے۔ فی الوقت ہم آپ کے ساتھ زبانِ یارِ من میں عالم گیر شہرت حاصل کر لینے والے ڈرامے کے دوسرے سیزن کے بعد حاصل ہونے والے کچھ مزید تجربات کی بات کریں گے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خوشگوار تجربہ تو یہ ہوا کہ ہمارا طوفانی جذبۂ شوق، کچھوا رفتار اُردو ڈبنگ سے بہت آگے نکل کے زبانِ یارِ من کے جا ہم رکاب ہوا۔ یعنی اس ڈرامے کا دوسرا سیزن ہمیں براہِ راست ترکی زبان میں اُردو سب ٹائٹلز کی سہولت کے ساتھ دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں زبانِ من اور زبانِ یارِ من یعنی اُردو اور ترکی دونوں کے ساتھ دلی ربط رہا۔ ترکوں کے ساتھ ہمارا مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور ثقافتی اشتراک تو کسی حاسد سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس پر مزید مزے کی بات یہ کہ ہماری زبان کا سرنامہ ’’اُردو‘‘ تو ہے ہی ترکی زبان کا لفظ، اس لیے جب آتش، آہ، الفت، احوال، اعلیٰ، اعزاز، احمق، البتہ، استراحت، اشتراک، امانت، انتظار، انتقام، امیر، اطاعت، اصل، بابا،برابر، بہار، برطرف، برباد، باشندہ، پریشان، پوستین، پائیدار، تواضع، ترجمان، تاجر، تجارت، تربوز، تمام، ترجیح، جرأت، جہان، جنازہ، جاسوس، جنت، جہنم، چنار، حق، حساب، حتّٰی، حیات، حادثہ، خاتون، خالہ، خیانت، خون، داماد، درمان، دوست، دشمن، دوام، روح، راضی، رات، راحت، زیرک، زیادہ، زیارت، زندہ، زندان، زہر، سبب، سیاست، سلطان، سلامتی، سکون، سہولت، سا لمیت، شرف، شفقت، شیشی، شدید، شاعر، شفا، شہد، صلح، صمیم، صبر، طاقت، ظفر، عورت، عدالت، علامت، عاجزی، عقل، عاشق، عزم، غرور، غفلت، غنیمت، غریب، غائب، غازی، فقط، فدا، فتنہ، فائدہ، قوت، قلب، قربان، قانون، قبول، قیمت، قرار، کار، کاش کا بار بار استعمال اتنی نفاست اور اپنائیت سے کرتے ہیں کہ ان الفاظ کو بھی گود لینے کو جی مچلتا ہے۔ اس ڈرامے کی سب سے خاص بات تو یہی ہے کہ یہاں شرافت، دیانت اور جرأتِ ایمانی ، عیاری، مکاری اور غداری کے سامنے استقامت کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔ حیا اور پردے نے بے حیائی و برہنگی کو سرِ بازار رسوا کیا ہے۔ اس میں پیش کیا جانے والا پاکیزہ اخلاقی و اسلامی کلچر، نام نہاد لبرلزم کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ یہ وہی لبرلز ہیں جنھوں نے حفیظ جالندھری، احسان دانش، نسیم حجازی اور ابنِ صفی جیسے نابغۂ روزگار قلم کاروں کے ساتھ ساتھ قومی ترانے کا بھی محض ان کے اسلامی افکار کی بنا پر مذاق اڑایا اور محض لبرل اور چرائے ہوئے مغربی خیالات کی بنا پر اپنے بہت سے نہلوں کو سر آنکھوں پہ بٹھایا ۔ ویسے تو اس ڈرامے میں ہمارے ہاں ساری عمر اوور ایکٹنگ جیسی بیماری سے باہر نہ نکل سکنے والے اداکاروں کے سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے، لیکن اس ڈرامے کی بے پناہ مقبولیت ہمارے فلم اور ڈرامے کے ان مصنفین، ہدایت کاروں اورپیش کاروں کے لیے آئینہ ہے جو آج تک عوام و خواص کو یہ کہہ کہہ کے بیوقوف بنائے ہوئے تھے کہ ڈراموں میں دکھایا جانے والا سستا رومانس اور مہنگی عریانی، فحاشی پبلک کی ڈیمانڈ ہے، اب پتا چلا کہ یہ نجاست، پبلک کی نہیں ان کی اپنی گندی ذہنیت کی ڈیمانڈ ہے۔ ایک ظریف نے تو یہاں تک کہا کہ اگر ’ ارطغرل غازی ‘ محمد بزداغ کی بجائے کسی پاکستانی کی پیشکش ہوتا تو ارتغل کے ہر جنگ پہ جانے سے قبل حلیمہ سلطان پہلے تو ناچ ناچ کے پنجاب کی آدھی فصلیں تباہ کرتی اور پھر اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ کے گا رہی ہوتی: توڑ سُٹاں چوڑیاں تے کھول سُٹاں وال / چھڈ کے نہ جاویں مینوں لَے چل نال/ نئیں تے کر لاں گی شیدائناں والا حال مزے کی بات یہ کہ اس ڈرامے میں دلوں کی کونپلوں سے پھوٹنے والا رومان بھی ہے، مثبت اقدار کے فروغ کا جذبہ بھی ہے، حق اور باطل کی ٹھیک ٹھاک کشمکش کے بعد حق کی فتح کی رجائیت بھی ہے، گھناؤنی سازشیں، من بھاؤنی دوستیاں، غرض یہ کہ غداری، وفاداری، جفاکشی، امید، نا امیدی، کی بے مثل کیفیات بھی اور سب کچھ حقیقت کے بالکل قریب… لیکن اس ڈرامے سے صحیح معنوں میں جو سبق ہم نے سیکھا وہ یہ کہ دولت و اقتدار کی ہوس میں رال ٹپکاتے لوگ قوم و ملک کے لیے کتنے خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کی سازشوں کے جال کہاں کہاں تک پھیلے ہوتے ہیں۔ لالچی لوگ کسی قوم میں ہوں، کسی ملک میں ہوں، وہ اپنے اور اپنی مکروہ نسلوں کے مفاد کے لیے گھٹیا سے گھٹیا اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان کی آنکھوں پر زر اور شر کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ وہ اپنی زہریلی ذہنیت اور بدبودار فطرت سے اس وقت تک باز نہیں آتے جب تک انھیں سختی سے کچل نہ دیا جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ اس ڈرامے کی تازہ تازہ مقبولیت کے دنوں میں ایک لبرل صحافی نے خواہ مخواہ کا کریڈٹ لینے کی خاطر ٹویٹ کیا کہ ’مَیں نے اس ڈرامے کی ایک بھی قسط نہیں دیکھی۔‘ کسی دل جلے نے فوری کمنٹ کیا: دیکھنا بھی مت وہاں قوم و ملک کے غداروں کے سر قلم کر دیے جاتے ہیں!!!