معزز قارئین!۔ انتخابی نشان ’’ شیر‘‘ والی پارٹی ( پاکستان مسلم لیگ ن) کے چھوٹے بڑے لیڈروں اور کارکنوں کو بھی شیرؔ ہی کہا جاتا ہے ۔ یہ سب اِس لئے ہُوا (اور ہو رہا ہے ) کہ سزا یافتہ (سب سے بڑے شیرؔ) نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف تو بیمار ہُوئے ہی تھے کہ کسی بیماری میں مبتلا ، نامزد اور پھر منتخب صدر ، برادرِ خورد ( یعنی چھوٹے شیرؔ) سابق خادم اعلیٰ پنجاب ، میاں شہباز شریف بھی لندن کے دورے پر تشریف لے گئے ۔ اُنہوں نے بھی لندن میں اپنا قیام طویل کردِیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب تک اُن کی بیماری کا مکمل علاج نہ ہوجائے اور وہ مکمل صحت یاب نہ ہو جائیں تو وطن واپس کیسے آئیں؟ ۔ خبروں کے مطابق ’’ میاں شہباز شریف عید لندن میں منائیں گے‘‘۔ اِن کی وطن سے دُوری کے باعث (مسلم لیگ ن کے اصل قائد) بیمار ؔمیاں نواز شریف سے مُشاورت کے بعد مسلم لیگ (ن )کے بڑے چھوٹے شیروں ؔنے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئرنائب صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف نامزد (یا منتخب) کرلِیا ہے ۔ رانا تنویر حسین ’’ پبلک اکائونٹس کمیٹی‘‘ کے چیئرمین اور خواجہ محمد آصف پارلیمانی لیڈر ہوں گے ‘‘ ۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’ مسلم لیگ (ن ) کے متعدد ارکانِ پارلیمنٹ (شیروںؔ) نے اِن نامزدگیوں / انتخابات پر احتجاج کرتے ہُوئے اِسے ’’ بندربانٹ ‘‘ کا نام دِیا ہے ۔ اِس پر ( کم از کم ) مَیں تو بہت پریشان ہُوں کہ ’’ شیروں ؔکی پارٹی کے عہدوں کو بانٹنے کے لئے کون ہیں وہ بندر صاحب یا ( Mr.Monkey) کہ جنہوں نے ایسا کمال دِکھا دِیا؟۔ تاہم 3 مئی کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر ، مریم نواز صاحبہ کا یہ بیان شائع ہُوا جس میں اُنہوں نے مسلم لیگ ن کے لیڈروں اور کارکنوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ’’ شیروؔ!۔ وقت ایک بار پھر نوازشریف کی بے گناہی اور استقامت کی گواہی دے گا۔ شیروؔ!۔ مضبوط ایمان کے ساتھ اِسی طرح ڈٹے رہو، نواز شریف آپ کے سروں کو نہیں جھکنے دے گا‘‘۔ مَیں حیران ہُوں کہ’’ مریم نواز صاحبہ اپنے والدِ محترم کا نام اِس بے تکلفی سے کیوں لے رہی ہیں ؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ کل مجھے اردو اور فارسی کے نامور شاعر ’’ اللہ کے شیر‘‘ مرزا اَسد اللہ خان غالبؔ پھر یاد آگئے۔ ’’ بیمار، بیماری اور موت‘‘ سے متعلق فرما گئے کہ … پڑئیے گر بیمار تو، کوئی نہ ہو تیمار دار؟ اور اگر مر جائیے تو، نوحہ خواں ، کو ئی نہ ہو! مرزا اسد اللہ خان غالب ؔاگر آج کے دَور میں کسی ’’ مسلم لیگ یا کسی پیپلز پارٹی کے صدر / چیئرمین ہوتے تو شاید کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر یا ’’مُک مُکا ‘‘کر کے ملکۂ برطانیہ کی شان میں کوئی قصیدہ لکھ کر ضرور بھجوا دیتے اور شاہی خرچ پر اپنی (پسندیدہ) بیماری کا علاج کراتے؟۔ لیکن ’’ اللہ کے شیر‘‘ مرزا غالبؔ نے تو اپنی برادری ( مُغل برادری) کے آخری مُغل (شاعر) بادشاہ بہادر شاہ ظفر ؔکو ، اپنا یہ شعر بھجوا کر تڑیؔ لگا دِی تھی کہ … سو پُشت سے ہے ، پیشۂ آبائ، سِپہ گری! کچھ شاعری ہی ، ذریعۂ عزت نہیں ،مجھے! لیکن شیرؔ کے انتخابی نشان والی مسلم لیگ میں شیرؔ کہلانے والے تو بے شمار ہیں لیکن ،اُن میں شاعر تو کوئی بھی نہیں اور اگر ہوگا تو، وہ ابھی معروف نہیں ہوسکا؟ ‘‘ ۔ سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے عوامی جلسوں میں گلوکاری کا مظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اب لندن میں تو کوئی ماہر کلاسیکی موسیقار ہی نہیں "Pop Music" کے ماہرین ہیں لیکن ، لندن میں مقیم پاکستانی تو ’’ پاپ میوزک‘‘ کو ہندی لفظ ’’پاپ ‘‘(گناہ ) کی وجہ سے اِسے ’’گناہ کا میوزک ‘‘ سمجھتے ہیں؟۔ معزز قارئین!۔ 12 اپریل 2016ء کو (اِن دِنوں ) وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی کسی بیماری ؔکا علاج کرانے لندن پہنچے تو ،اُنہوں نے "Heathrow Airport" پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں علاج کے لئے لندن آیا ہُوں ۔ معاملات ٹھیک کرنے نہیں ۔ معاملات ٹھیک کرنا ہوتے تو ، مَیں "Panama" جاتا۔ خبروں کے مطابق لندن جانے سے پہلے ، وزیراعظم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو حکومتی ٹیم کا "Captain" اور مریم نواز صاحبہ کو اِن کا معاون مقرر کردِیا تھا اور یہ اعلان بھی کِیا تھا کہ ’’ میرے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد ، اُن سے ( یعنی۔ اسحاق ڈار اور مریم نواز صاحبہ سے ) ہدایات لِیا کریں گے‘‘۔ میاں نواز شریف کے اِس بیان پر 15 اپریل 2016ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ ملکہ ہماری مُرشد ، لندن ہے پیر خانہ‘‘۔ دراصل میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے دو شعر یوں کہے تھے… پانامہ لِیکس کا تو ، بس بن گیا بہانہ! بخشا خُدا نے ہم کو ، اندازِ مُجرمانہ! آزاد ہیں تو کیا ہے ؟ سیاست ہے عاجزانہ! ملکہ ہماری مُرشد ، لندن ہے پِیر خانہ! معزز قارئین!۔ انگریز حکمرانوں کا کمال یہ تھا / ہے کہ اُنہوں نے اپنے غلام ملکوں کو آزاد کرکے انہیں "Commonwealth"(دولتِ مشترکہ) کے جال میں جکڑ رکھا ہے ۔ جب اِس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں (سابق غلام قوموں کے ) منتخب یا غیر منتخب سربراہوں کو ملکۂ برطانیہ کے برابر کی کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے تو اُن کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور اُن کا نیا ’’ شجرہ نسب‘‘ بن جاتا ہے ۔ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال لوگوں کی قسمت کے فیصلے زیادہ تر لندن ہی میں ہوتے ہیں ؟ ۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ’’ قائدِ عوام‘‘ اور ’’ فخرِ ایشیا‘‘ کہلانے والے چیئرمین ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان کی حیثیت سے (بچے کھچے پاکستان ) بقول جنابِ بھٹو، ’’ نیا پاکستان‘‘ کا منصب سنبھالا تو ، لندن میں ’’ بنگلہ دیش‘‘ کے صدر شیخ مجیب اُلرحمن سے پختون لیڈر (مرحوم) خان عبداُلولی خان اُن کے کچھ دوسرے ہم خیال سیاستدانوں نے ملاقات کی تو ، وزیراعظم بھٹو کے وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی (مرحوم) پہلے سیاستدان تھے کہ ’’ جنہوں نے اِس ملاقت کو "London Plan" کا نام دِیا تھا ؟ ۔ بعد ازاں صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں جب ہمارے دو سابق جلا وطن وزرائے اعظم نے14 مئی 2006ء کو لندن میں "Charter of Democracy" (میثاق جمہوریت) پر دستخط کئے تو اِسے بھی ’’ لندن پلان‘‘ ہی کہا گیا ۔ برطانیہ کی ملکہ ، الزبتھ دوم ، کینیڈا کی بھی ملکہ ہیں۔ ’’ایم ۔ کیو ۔ ایم ‘‘ کے بانی الطاف حسین اور کینیڈین شہری ’’پاکستانی عوامی تحریک ‘‘کے بانی علاّمہ طاہر اُلقادری نے ، ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اُٹھا رکھا ہے ۔ یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ’’ کوئی شخص بیک دو آقائوں کا وفادار نہیں ہوسکتا‘‘۔ پنجابی کے صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش صاحبؒ نے نہ جانے کِس شخصیت یا اشخاص کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچتے ہُوئے کہا تھا کہ … رحمت دا مِینہ پا، خُدایا، باغ سُکّا کر ہَریا! بُوٹا آس اُمید دا ،میری ، کر دے میوے بھریا! صورت یہ ہے کہ ’’ مرحومین ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل ضیاء اُلحق کی یادگار ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی باقیات ؔجنابِ آصف علی زرداری ، فریال تالپور ، بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن ) کے شریفین سمیت بہت سے چھوٹے بڑے شیروں ؔکو قدرت نے اپنے شکنجے میں جکڑ لِیا ہے ۔ قدیم دور کے بادشاہ ، مجرموں کو ( تیل پیلنے یا رس نکالنے والے آلے) کولہوؔ میں پیل کر ( سخت تکالیف دے کر ) مروا دیتے تھے ۔ اُستاد شاعر رنگینؔ نے نہ جانے کِس خاتون کی ترجمانی کرتے اور ربّ عظیم سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … یا ربّ ، شبِ جُدائی تو، ہر گز نہ ہو نصیب! بندیؔ کو، یُوں جو چاہے ، تو کولہوؔ میں پیل ڈال! حروف آخر!۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی قائدین اکثر کسی مغربی مفکر کے اِس قول کی جگالی ؔکِیا کرتے ہیں کہ ’’ بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ‘‘ لیکن ، اب یہ قول بدترین جمہوری لیڈروں کو کون بچائے گا؟۔ کیا ملکۂ معظمہ برطانیہ یا اُن کی دولتِ مشترکہ؟۔