جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے سلامتی کونسل کے ارکان کا نیو یارک میں اکٹھ ہو چکا ہو گا جس میں وہ اس بات پر غور کریں گے کہ پاکستان نے جو کشمیر کے مسئلے کو دوبارہ اٹھایا ہے اس کا کیا کیا جائے‘ اجلاس بلایا جائے یا بس غیر رسمی بات چیت پر اکتفا کیا جائے۔ اجلاس میں کیا ہوتا ہے یہ دوسری بات ہے۔ دیکھے کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک۔ تاہم اس وقت بڑے اعتماد سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فوری طور پر کسی غیر معمولی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ ایساہوتا تو ہمارے وزیر خارجہ نیو یارک پہنچ گئے ہوتے۔ اس لئے نہیں کہ وہ اس کا کریڈٹ سمیٹنا چاہتے‘ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس لئے کہ اس سفارتی عمل میں پاکستان کی اعلیٰ ترین سطح پر موجودگی ضروری ہوتی۔ کیا پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کچھ کر سکے۔ وزیر خارجہ خود کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ وہاں کوئی ہار پھول لے کر نہیں کھڑا۔ پھر وہ وہاں جا کر کیوں برا نام کمائیں۔ ایک سیاستدان کو ایسا ہی سوچنا چاہیے مگر پاکستان اور کشمیر سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نیک نامی یا بدنامی کے خیال سے بے نیاز ہو کر اس آگ میں بے خطر کود جائیں۔ ہماری سفارت کاری کا یہی تو امتحان ہے کہ ہم وہاں اکٹھی ہونے والی عالمی برادری کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ہو رہے ہیں اور وہاں مظلوموں کا خون ناحق بہہ رہا ہے اور لوگوں کی آزادیاں سلب ہیں۔ ہم نے اسے بھارتی آئین کی تبدیلی کا مقدمہ بنایا ہے۔ یا ایک قوم کے انسانی حقوق اور حق خود اختیاری کے مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہے یا انہیں سمجھانا ہے کہ کس طرح ایک طویل عرصے سے عالمی ضمیر نے اس پہلو سے آنکھیں چرائے رکھی ہیں۔ اب اس میں مزید غفلت ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ خبردار رہویہ آتش فشاں کسی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ؎ جس خاک کے خمیر میں ہو آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے ہاں اس کی سکت ہے کہ ہم عالمی رائے عامہ کو ہموار کرسکیں لازمی نہیں کہ ہماری معیشت مضبوط ہو بلکہ ہم میں ایسی سفارتی صلاحیت موجود ہو کہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ سکیں۔ ہم نے دفتر خارجہ کی تشکیل عرصہ ہوا اس نکتہ نظر سے کرنا چھوڑ رکھی ہے کہ وہ عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرسکے۔ وہ ایک ذیلی ادارہ بن کر رہ گیا ہے جسے دوسرے ادارے نکیل پکڑ کر چلاتے ہیں اورسمجھتے ہیں وہ حدی خواں ہیں جو بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جا رہے ہیں۔ ہمارا دفترخارجہ ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ وزیر خارجہ کی ہمارے ہاں ہمیشہ سے بڑی اہمیت رہی ہے۔ اسے وزیر اعظم کے بعد دوسرا اہم ترین عہدہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ سنٹرل سپیریئر سروسز میں پہلے فارن سروسز نمبر ایک پر ہوتی تھی۔ پھر نمبر 2پر آ گئی۔ تاہم یہ امتحان پاس کرنے والوں کو جب ہم نے اپنی مرضی سے محکمہ چننے کا اختیار دیا تو ان کی اکثریت نے کسٹمز اور انکم ٹیکس کو چنا ‘ حتیٰ کہ پولیس اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ سے بھی پہلے۔ فارن سروسز میں جانے والے وہ تھے جن کا میرٹ میں نمبر بہت پیچھے تھا۔ میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب شہر یار سیکرٹری خارجہ تھے تو میں نے ایک ظہرانے میں ان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ہی سوال داغ دیا کہ وہ لوگ جو اب فارن سروس میں آ رہے ہیں وہ کس صلاحیت کے لوگ ہیں۔ مری بات سننے کے بعد پہلے تو وہ ذرا خاموش ہوئے پھر کہنے لگے اس بار 12افراد اس سروس میں آئے ہیں اور میں یہ سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں کہ جب یہ لوگ معاملات چلا رہے ہوں گے تو ملک کا کیا بنے گا۔ ایک محفل میں یہ واقعہ میں سنا بیٹھا۔ وہاں کوئی چار فارن سروس کے لوگ تھے۔ بڑی نیاز مندی سے کہنے لگے‘ ہم وہی لوگ ہیں جن کی تربیت شہریار صاحب نے بڑی محنت سے کی ہے۔ آپ کی ہمارے بارے میں کیا رائے ہے۔ ایک ذرا خفت سی تو ہوئی‘ مگر پھر ذرا صاف گوئی سے عرض کیا آپ کا امتحان آنے والا ہے وقت ثابت کرے گا‘ آپ کس سطح کے سفارت کار ہیں۔ اب وہ وقت آ گیا ہے۔ آن پہنچی ہے امتحان کی گھڑی۔ سچ پوچھئے تو ہماری فارن سروس کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ چلتی ہواکے ساتھ چلتے ہیں اور نہیں جانتے ملک کے لئے کیا بہتر ہے۔ ایک ملیحہ لودھی کو چھوڑ کر باقی جتنے یا اکثر ڈاکٹر جو فارن سروس میں ہیں وہ پی ایچ ڈی نہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔جنہوں نے قوم کا سرمایہ میڈیکل تعلیم پر خرچ کر کے سول سروس کا انتخاب کیا۔ گستاخی نہ ہو تو یہ پھبتی کسی جا سکتی ہے کہ ناکام معالج ہمارے مسیحا بن بیٹھے ہیں۔ یہ تو صرف ایک پہلو ہو گیا۔ وگرنہ ہم نے فارن سروس کو کارآمد بنانے کے لئے کچھ کرنا کب کا چھوڑ رکھا ہے۔ کبھی کبھی رو لیتے ہیں کہ بھارت کا دفتر خارجہ ملکوں ملکوں اپنے لئے منڈیاں تلاش کرتا ہے۔ ہمارا دفتر خارجہ کیوں نہیں کرتا۔ یہ تو خیر ادنیٰ ترین کردار ہے جو دفتر خارجہ کے سپرد ہونا چاہیے۔ اصل کردار تو یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہماری عزت اور وقار ہو۔ یہاں میں قطعاً نہیں کہوں گا کہ آپ بین الاقوامی سطح پر وہی مال بیچ سکو گے جو ملک میں تیار ہو گا۔ یعنی خارجہ پالیسی آپ کی داخلہ پالیسی کا عکس ہوتی ہے‘ یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا کہ اسے سیاست سمجھا جائے گا اور ملکی سیاست کے بارے میں میری چارج شیٹ قرار دیا جائے گا وگرنہ یہ بات عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ کبھی ہم نے سوچا نواز شریف نے اپنا وزیر خارجہ کیوں مقرر نہیں کیا۔ سیاسی الزام لگانے کے بجائے اس کا تجزیہ ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے وہ غلط سوچ رکھتے ہوں مگر اس سوچ سے واقفیت تو ہونا چاہیے اور اس کا تجزیہ بھی۔ یہ نہیں کہ سرتاج عزیز پر انہیں اعتماد نہ تھا۔ مگر انہیں خود کہنے کے باوجود انہیں سینیٹر کا ٹکٹ نہ دیا۔ وجہ یہ بتائی جو ان پر دبائو آئے گا کہ انہیں مشیر خارجہ سے وزیر خارجہ بنا دیا جائے۔ شاید میاں صاحب کا خیال تھا کہ سرتاج عزیز دبائو برداشت نہیں کر پائیں گے۔ انہیں یہ دبائو خود ہی برداشت کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے اسی کے نتیجے میں یہ دبائو برداشت کرتے کرتے انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ یہ میں کوئی ’’انقلابی‘‘ بات نہیں کر رہا۔ ہماری سٹیٹس کو کی قوتیںملک کو اسی طرح چلاتی رہی ہیں۔ نواز شریف نے بہادری دکھائی جو اسے مہنگی پڑی اور ملک کو بھی۔ ملک میں آزاد خارجہ پالیسی کے ادارے ان کے دور میں بھی جان نہ پکڑ سکے۔ بات کو غلط نہ سمجھا جائے‘ دنیا بھر میں سکیورٹی کے معاملات میں سکیورٹی اداروں کی رائے کا ہمیشہ احترام کیا جاتا ہے۔ تاہم میرا دورہ اپنے اپنے انداز میں اور اپنے اپنے مخصوص مزاج سے کام کرتا ہے۔ پینٹا گان ایک طرح سوچتا ہے۔ ایسے جیسے عسکری ذہن کو سوچنا چاہیے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا انداز اپنا ہوتا ہے جیسے سفارتی اداروں کا ہونا چاہیے۔ ضرورت ہو تو ایک قومی سلامتی کا مشیر بھی بنا دیا جاتا ہے جس کی سربراہی ہنری کسنجر جیسے لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔اس میں بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ فیصلہ آخر میں وائٹ ہائوس میں ہوتا ہے جس میں خفیہ اداروں کی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔ پالیسیاں اس طرح بنتی ہیں۔ پھر ان پر عملدرآمد کرنے کے لئے بہترین ٹیم دستیاب ہوتی ہے۔ ہمارے پاس کیا ہے‘ کیا ہماری تیاری ہے۔ ہم تو سفیر مقرر کرتے ہوئے بھی زیادہ نہیں سوچتے‘ بس ٹاس کر لیتے ہیں کہ یہ منصب کس لابی کو خوش کرنے یا خاموش کرنے کے لئے دینا ہے۔ یہ مگر یاد رکھا جائے کہ ملک میں صلاحیتوں کی کمی نہیں۔ اب جب ہم کشمیر کے مسئلے سے ازسرنو دوچار ہوئے ہیں تو ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے نظام کو درست کر لینا چاہیے۔ تھنک ٹینک بنا لیں۔ سروسز کے باہر سے لوگ تلاش کریں۔ مگر نیک نیتی سے۔ اس طرح گزارہ نہیں ہو گا۔ ابھی یہ جنگ لمبی ہے۔ ہم بعض سابق سفارت کاروں کا بھی ایک پول بنا سکتے ہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اس طرح منہ تکتے رہنے سے بات نہیں بنے گی۔ فی الحال اتنا ہی ‘ ورنہ خیال تھا کہ ایک آدھ طاقت ور اور موثر وزیر خارجہ کا ذکر کر کے بتائوں کہ وزیر خارجہ کیا کر سکتا ہے۔