باب حریم حرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا تفسیر آرزوئے وفا دھڑکنوں میں تھی وہ چپ رہا تو ہم سے بھی بولا نہیں گیا میں نے حرف کی حرمت سے بات آغاز اس لئے کیا ہے کہ آج میرا دل چاہتا ہے کہ ایک شعری انتخاب کے تذکرے سے آپ کی صبح مہکا دوں کہ ان کا ہی تصور ہے۔ ایسا ہی ایک گلدستہ جسے آپ سخن دستہ کہہ لیں مگر اس سے پیشتر کچھ سیاسی باتیں بھی لازم ہیں کہ امریکہ کے نئے صدر نے حلف اٹھا لیا ہے جوبائیڈن کے بارے میں سجاد میر صاحب نے نہایت اچھی بات کیں ہے کہ حضرت تین مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور اسی باعث خوش قسمتی سے وہ پاکستان کے بارے سب سے زیادہ جانتے ہیں اور بدقسمتی بھی اسی خوبی میں مضمر ہے کہ وہ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں مجھے مگر جوبائیڈن کے بارے میں نہیں کہنا ،کہ کرنا تو سب کچھ شیر نے ہے تاہم یہ خوشی ضرور ہے کہ ٹرمپ کو وقت نے ڈنپ کر دیا ہے مگر تعفن ابھی ختم نہیں ہوا۔ میرے معزز قارئین!آتے ہیں اپنے ملک کی سیاست کی طرف جس کی ہلکی سی جھلک کیپیٹل ہل پر حملے کی صورت امریکہ میں دیکھی جا چکی ہے آج مگر مزے مزے کی باتیں ہونگی شبلی فراز فرماتے ہیں کہ براڈ شیٹ معاملہ سے بنارسی ٹھگ بے نقاب ہو گیا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے بنارسی ٹھگوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ آخر وہ اتنے مشہور کیوں ہوئے ایک شخص نے یہی کچھ جاننے کے لئے بنارس کا سفر کیا اور ایک شخص سے ملاقات کی اور ان کی نیک نامی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ یہ بھی تو عام آدمی نہیں تھا اس نے بھی شرط لگا کر ٹھگ سے سونے کا سکہ ہتھیانا تھا وہ اس کے قریب ہی سویا اور وہ سکہ حاصل نہ کر سکا اگلے روز اس نے اعتراف کیا کہ وہ بنارسی ٹھگ کے لباس سے سکہ نہ ڈھونڈ سکا پتہ چلا کہ وہ سونے کا سکہ تو بنارسی ٹھگ نے آنے والے کی جیب میں ڈال دیا تھا اور صبح ہوتے ہی نکال لیا۔تو قبلہ آپ کسی کی بھی چوری نہیں پکڑ سکتے۔ مجھے یہ پڑھ کر بھی ہنسی آتی ہے کہ شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ یہ الٹے بھی ہو جائیں تو میری کرپشن کے ثبوت فراہم نہیں کر سکتے۔ بڑی معذرت کے ساتھ کہ میں شہباز شریف کے کاموں کا معترف ہوں۔ وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ انہوں نے کرپشن کی ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کرپشن کے ثبوتوں کو آگ نہیں لگائی جا سکتی۔ وہ جانتے یں کہ ایسے ثبوتوں تک تو آگ خود پہنچ جاتی ہے اور پھر یہ سمجھدار آگ صرف ثبوتوں ہی کو جلاتی ہے۔ایسے ہی ایک شعر ذھن میں آ گیا: ان خطوں کو کہیں دریا میں بہایا ہوتا اس طرح خود کو جلانے کی ضرورت کیا تھی میرے پیارے قارئین!اب میں آپ کا وقت ضائع کیے بغیر آپ کو اس شعری ارمغاں کی طرف لے چلتا ہوں جسے حکیم جمیل اصغر نے آپ کے لئے ترتیب دیا ہے۔ سچی بات یہ کہ میں تو اس باغ و بہار قسم کے انتخاب کو دیکھ کر سرشار ہو گیا اس میں غزل‘ نظم اور گیت کے رنگ اور خوشبو ہے۔ انہوں نے پرانے حکما کی یاد تازہ کر دی کہ جو حکمت کے ساتھ ساتھ شاعری کو شعار کرتے تھے۔ انہوں نے ایسے ایسے بھولے بسرے گیت ڈھونڈے ہیں کہ پڑھ کر لطف آ جاتا ہے۔ مجھے تو اس لئے بھی زیادہ اچھا لگا کہ ان باکمال گیت نگاروں کے ساتھ ہم اٹھے بیٹھے اور ان کی زبان سے گیت سنے اور کچھ کو فلموں میں سنا۔مثلاً سیف الدین سیف‘ قتیل شفائی‘ منیر نیازی ‘احمد راہی‘ حبیب جالب‘ مسرور انور‘ مظفر وارثی‘ کلیم عثمانی اور حمایت علی شاعر۔ مجروح سلطان پوری تک کو بھی میں نے بنفس نفیس سن رکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حکیم جمیل اصغر نے غزل اور نظم کا بھی بہت اعلیٰ انتخاب کیا ہے مگر گیت پر شاید انہوں نے زیادہ توجہ دی کہ گلو کار اور فلم کا نام تک بھی دے دیا اور بعض گیتوں کے نیچے تاریخ بھی بیان کر دی ہے۔ میری بات کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس شاندار انتخاب کا نام بھی گیت ہی سے لیا ہے ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی: ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی اس میں شک نہیں کہ سات سو صفحات پر مشتمل یہ انتخاب برصغیر کے نامور شعرا کا انتخاب ہے مگر اس میں کچھ نامور لوگ رہ بھی گئے ہیں۔ مثلاً اختر حسین جعفری جیسے، شاید اگلے ایڈیشن میں یہ کمی پوری ہو جائے۔ کچھ کلام انہوں نے شعری مجموعوں سے لیا۔ مثلاً اگر حکیم صاحب مجھے فون کر لیتے تو میں بھی انہیں اپنی گائی گئی غزلوں یا گیتوں کے گلوکار بتا دیتا۔ مگر اس انتخاب کی خوبیاں زیادہ ہیں کئی نغمات کے تخلیق کاروں کا مجھے اسی انتخاب سے پتہ چلا مثلاً: وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے غم زندگی کے اندھیرے میں ہم نے چراغ محبت جلائے بجھائے (سدھو پالی) ایک بات خاص طور نوٹ کرنے والی ہے کہ گیت نگاری میں پاکستانی شعرا بھارت کے شعرا سے ہر حوالے سے بہتر ہیں اور ساحر لدھیانوی بھی یہیں سے گئے تھے۔ سیف الدین سیف اپنے ادبی معیار کی وجہ سے بہت اہم ہیں۔ پھر تنویر نقوی‘ قتیل شفائی اور فیاض ہاشمی۔ مجھے یاد ہے کہ جب سیف الدین سیف بھارت گئے تو ساحر لدھیانوی اپنے استاد کا بیگ اٹھائے ساتھ ساتھ چلتے تھے ۔میں نے تو احمد فراز اور شہزاد احمد کو بھی سیف صاحب کا احترام اسی طرح کرتے دیکھا۔فیاض ہاشمی کے گیت بھی سر چڑھ کر بولے۔ کس کس کا حوالہ دوں کہ کالم تو آخر کالم ہے: ہم بھول گئے ہر بات مگر ترا پیار نہیں نہیں بھولے کیا کیا ہوا دل کے ساتھ مگر ترا پیار نہیں بھولے (فیاض ہاشمی) ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں‘ نظر میں مستی جھلک رہی ہے (تسلیم فاضلی) آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے (راجہ مہدی علی خاں) دکھائے دل جو کسی کا وہ آدمی کیا ہے کسی کے کام نہ آئے وہ زندگی کیا ہے (مسرور انور) آخر رمیں حکیم جمیل اصغر کے حوالے سے پروفیسر میاں عبدالمجید کے لکھے فلیپ کے چند جملے۔ حکیم جمیل اصغر علمی و ادبی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ طبیب کی حیثیت سے وہ غیر معمولی شہرت کے حامل ہیں۔ ادب سے ان کی گہری وابستگی ہے ان کی کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں: کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے