یہ نہیں کہ اس میں کوئی بات قابل اعتراض ہے‘ مگر مرے ذہن میں یہ سوال اس وقت سے کلبلا رہا ہے کہ آخر مسلح افواج کے ترجمان نے یہ پریس کانفرنس کی ہی کیوں۔ وہ کیا حالات ہیں یا صورت حال ہے جس نے انہیں اس پریس کانفرنس پر اکسایا یا اس پر مجبور کیا۔ اس میں اتنی اہم باتیں ہیں کہ ایک ایک غور طلب ہے۔ ایسی باتیں اس وقت ہی کہی جاتی ہیں جب ان کی شدت سے ضرورت محسوس ہو۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری طرح ادب و زباں کے ہر طالب علم کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ بین السطور پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اسلوب اور طرز کلام کے پیچھے چھپے نکتے تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات تحریر و تقریر کے پیچھے لاشعور بول اٹھتا ہے۔ اس پریس کانفرنس کو میں اسی تناظر میں دیکھ رہا ہوں اور قومی نفسیات کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ فقرہ معمولی نہیں ہے کہ ہم ایک ایک اینٹ لگا کر ملک دوبارہ بنا رہے ہیں۔ یہ چونکا دینے والا فقرہ ہے۔ اس میں لفظ دوبارہ آیاہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمارت تباہ ہو چکی تھی‘ ہم دوبارہ اس کی تعمیر کر رہے ہیں۔ غالباً اس مرحلے پر ہیں‘ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام۔ گویا وہ تخریب تمام تو ہو چکی ‘ اب اس کی تعمیر نو اور تشکیل جدید کے مسائل درپیش ہیں۔ یہ گویا اس بات کا اعتراف اور اعلان ہے کہ ملک کا مکمل طور پر ستیا ناس کر دیا گیا ہے۔ اب ہم دوبارہ اس کی تعمیر کر رہے ہیں۔ ویسے میں لفظ ’’ہم‘‘ پر بھی کھٹک گیا تھا، ہم سے مراد کیا ہے‘ کون ہے‘ پوری قوم ہے‘ اہل سیاست ہیں یا کوئی اور۔ جنرل آصف غفور نے بہت عمدہ وضاحت کی ہے کہ ایسا ملک چاہتے ہیں جہاںقانون کی حکمرانی ہو اور کوئی شخص کسی ادارے سے اور ادارہ ریاست سے بالاتر نہ ہو۔ سچ پوچھئے تو یہ پوری قوم کے خواب ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ایک دوسری بات بھی جڑی ہوئی ہے ‘وہ یہ کہ ملک فیصلہ کن موڑ پر ہے‘ ہم بحران بحران پکارتے رہتے ہیں۔ اب یا تو یہ بحران ختم ہو جائے گا یا مزید خراب ہو جائے گا۔ یہ بہت سخت تنبیہ یا وارننگ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے راستہ بھی دکھایا ہے۔ کچھ رکاوٹیں دور بھی کی ہیں اور کچھ اشارے بھی دیے ہیں۔ ایک توانہوں نے میڈیا کی طاقت کو پکارا ہے۔ انہیں ان کی اہمیت کا احساس دلایا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ چھ ماہ تک ملک اچھی تصویر کو اجاگر کرے۔ ملک کے اندر بھی اور دنیا کے سامنے بھی۔ پھر دیکھیں پاکستان کہاں پہنچتا ہے۔ اس ایک بات پر بھی یار لوگوں نے بین السطور پڑھنا شروع کیا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ لاشعور میں ایسی کیا بات ہے جو اس بیانئے کا تقاضا کرتی ہے۔ اسے بالکل اسی تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے 100دن مانگے تھے اور کہا تھا کہ اس کے بعد حالات بدل جائیں گے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اب مزید وقت مانگا جا رہا ہے۔ اس بیان میں بھی یہ بات عیاں ہے کہ حالات بہت دگرگوں ہو چکے ہیں۔ لوگوں میں مایوسی بھی بہت ہے مگر ایسا نہیں کہ کچھ نہیں ہوا۔ بہت کچھ ہوا ہے اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ میں نے ایک جگہ جنرل صاحب کی اس گفتگو کے بنیادی ڈھانچے کو تین نکات میں بیان کیا تھا کہ میڈیا کیا کرے اور اس کے ساتھ یہ کہ ہم (یعنی فوج) نے کیا کیا ہے اور عمران خاں نے جو ان دنوں چند باتیں کی ہیں ان کا مطلب کیا ہے۔ ان سے کوئی غلط معانی نہ نکالے جائیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پریس کانفرنس حالیہ تشویش ناک صورت حال میں راہ دکھانے‘ توازن قائم کرنے کی کوشش ہے۔ امن و امان قائم کرنے کے لئے فوج نے جو کام کیا ہے۔ اسے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ ویسے تو ان کا فرض ہے مگر موجودہ صورت حال میں اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ بعض لوگ ان معاملات میں فوج کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ایک کر کے وہ سب اقدام ہیں جو فوج نے اس ملک کے حالات کو درست رکھنے کے لئے اٹھائے ہیں۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ اس ملک میں اس کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ اس میں بہت کچھ کیا دھرا اہل سیاست کا ہے۔ بعض جگہ تو حالات بے قابو ہو جاتے ہیں۔ پختونوں کی پی ٹی ایم کے بارے میں خاص طور پر اس بیان میں ایک پریشانی جھلکتی نظر آتی ہے۔ اس عزم کا اظہار بھی کہ ہر خطرے سے نپٹا جائے گا۔ آج کل بعض باتیں ایسی ہو رہی ہیں کہ جواب میں ایک معذرت خواہانہ رویہ نظر آتا ہے۔ ملک کی معیشت نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر چیز ٹھپ پڑی ہے۔ سو دن پورے ہونے کے بعد ہر کوئی مزید تین ماہ کا وقت مانگتا دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ فوج کو بھی اس قومی تشویش کا اچھی طرح شعور ہے۔ حکومت کی بہت سی باتوں کا ردعمل تو کئی بار چاروں طرف سے آتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا‘ نئے انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ کپتان اپنی حکمت عملی بدل بھی سکتا ہے۔ اس پر بہت باتیں ہوئیں کہ یہ تو حکومت کو مزید غیر مستحکم کرنے کی بات ہے۔ البتہ نواز شریف نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ تو بہت خوش ہوں گے کہ ان حکمرانوں سے نجات مل رہی ہے۔ آخر وزیر اعظم کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیا تھی۔ اگرچہ اس میں بھی معانی نکالے جا رہے ہیں کہ اس کا مطلب بھی ایک پیام دینا ہے مگر کس کو۔ کوئی کہتا ہے نہیں یہ پیام پارٹی کارکنوں کو ہے کہ کام کرو‘ وگرنہ تمہارا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا اور مخالفوں کو کہ تم سیدھے ہو جائو وگرنہ سب ختم کر دیا جائے گا۔ یہ تو ایک بات ہوئی۔ مگر سیاپا اس بیان پر بھی پڑا ہوا ہے جس میں وزیر اعظم نے کچھ ایسا کہا ہے کہ فوج پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ ہے۔ یقینا یہ ایک قابل اعتراض بات ہے۔ کہنا وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ سول اور فوج ایک پیج پر ہے۔ ہمارے درمیان آئیڈیل تعلقات ہیں۔ اس کے دو طرح کے ردعمل آئے‘ ایک کائرہ صاحب کا کہ کیا یہ سمجھا جائے فوج دوسری جماعتوں کے منشور کے خلاف ہے ‘دوسرا پارٹی کے اندر سے کہ عمران روایتی سیاستدان تو ہیں نہیں۔ بس زبان پھسل گئی تھی۔ حضور ‘ عرض کیا نا کہ زبان پھسلنے کا فارمولا کوئی نہیں جانتا کہ زبان پھسلنے کے پیچھے بھی تو کہنے میں لاشعور بول رہا ہوتا ہے۔ جنرل آصف غفور نے اس سوال کے جواب پر خاصی محنت کی۔ بتایا کہ انہوں نے یہ تقریر بار بار سنی ہے۔ اب بھی ساتھ ہے‘ آنے سے پہلے بھی سنا ہے‘ اس کا مطلب وہ نہیں جو لوگ سمجھ رہے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں‘ مگر وزیر اعظم کا یہ مسئلہ تو ہے نا۔ ان کی سوچ کا محور و مرکز اپنی ذات ہے۔ وہ یہ نہیں کہیں گے کہ امریکہ نے طالبان سے بات چیت کرنے کا اذن دے کر گویا پاکستان کا موقف مان لیا ہے وہ کیسے کہیں‘ وہ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی سب غلط تھے‘ چنانچہ وہ یہ کہہ بیٹھے کہ امریکہ نے میرا موقف مان لیا ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف تسلیم کر لیا ہے۔ اس رویے کے پیچھے بہت ساری نفسیاتی الجھنیں ہیں۔ غالباً شخصیت کی یہ پرت ہی ملک میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا نہیں ہونے دیتی۔ وگرنہ یہ سوچنا کہ وزیر اعظم کی نیت میں کوئی خرابی ہے‘ درست بات نہ ہو گی۔ وہ ایک محب وطن شخص ہیں اور ملک کی بہتری چاہتے ہیں۔ ذرا ذات کے خول سے باہر نکل آئیں اور انا کے مقام سے اتر کر نیچے آ جائیں تو بہت کچھ کر پائیں گے۔ ان میں اس کی صلاحیت بھی ہے اور عزم بھی۔ سو میں اس پریس کانفرنس کو اس پس منظر میں دیکھتا ہوں کہ ملک کی ترقی کی راہ میں جو کانٹے بکھیر دیے گئے ہیں‘ وہ اس میں سے ملک کو نکالنا چاہتے ہیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ بحران یا بہت خراب ہو جائے گا یا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ تشویش کا اظہار بھی ہے اور امید کا بھی۔ اس حوالے سے باقیوں کو تو انہوں نے مشورہ دیا ہے۔ مگر اپیل صرف میڈیا سے کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میڈیا بھی ان کی مچان پر نہ جا بیٹھے اور اس بنیادی تشویش کو سمجھے جو اس پورے بیانئے کے ایک ایک لفظ سے ٹھیک رہی ہے۔ حکومت بھی ذرا رک کر اپنی پالیسیوں کا تجزیہ کرے کہ ساری قوم کی نظریں اس پر ٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے اور بہت سی باتیںبھی کیں جو بہت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان کہ پاکستان پہلے سیکولر بنے تو بات ہو گی۔ کیا خوبصورت جواب ہے کہ ہم جیسے ہیں ہم ایسے ہی بنے تھے۔ ہمیں ایسے ہی مانو۔ تم تو سیکولرازم کے نام پر وجود میں آئے تھے۔ تم تو اس پر عمل کرو۔ اور بہت سی باتیں ہیں۔ بہرحال بات اس پر ختم کرتا ہوں کہ پوری قوم ہی تشویش میں نہیں ہے‘ فوج میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ بہت کچھ کر بھی رہے ہیں اور صورتحال کو سنبھالنے کے لئے میدان میں اترے بھی ہیں۔ ان کی آواز سنو‘ ان کی بات سنو‘ شاید کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا ہو اور جواز پیدا ہو۔