اب تو معاملات آگے بڑھنا چاہئیں۔ اس لئے نہیں کہ سو دن گزر چکے ہیں اور مزید چھ ماہ کی مدت شروع ہو چکی ہے۔ بلکہ اس لئے کہ ملک مزید تاخیری متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت تو مل جائے گی‘ معاف کیجئے حکومت کی نہیں چلے گی۔ جلد ہی پوچھا جانے لگے گا کہ ملک میں کس کی حکومت ہے۔کوئی حکومت ہے بھی یا نہیں۔ اس وقت حالات قدرے پرسکون نظر آتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم کارشبریاراںشروع کر سکتے ہیں۔ اتنا عرصہ گزرگیا‘ قانون سازی کا کوئی کام نہیں ہوا۔ آج پارلیمنٹ میں بھی پوچھا گیا کہ اتنے عرصے میں ہم پارلیمانی کمیٹیاں تک نہیں بنا سکے۔ پارلیمنٹ ڈبیٹنگ فورم نہیں ہے۔ قوم کا اتنا سرمایہ اس پر اس لئے خرچ نہیں ہوتا کہ لوگ آکر دل کی بھڑاس نکال سکیں یا تو ہم اس نظام کو نہیں سمجھ رہے یا ہم اسے ٹھپ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ساری باتیں کرتے ہوئے میں محض حکومت سے مخاطب نہیں ہوں‘ نہ میرا روئے سخن حزب اختلاف کی طرف ہے۔ نہ ان نادیدہ قوتوں کی طرف ہے جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ اصل معاملات وہ چلاتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے بہت پہلے ایک بات عرض کی تھی کہ آج کل ہمارے اردگرد جو ماڈل چل رہے ہیں‘ وہ ہماری دھرتی کے مزاج سے لگا نہیں کھاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں وہ سرزمین بھی عزیز ہیں جہاں یہ ماڈل رائج ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم چین جا کر پوچھیں گے کہ آپ نے کرپشن کے خاتمے کا کون سا ماڈل اپنایا ہے تو ہم غلطی کریں گے۔ چین کی اپنی تاریخ ہے ان کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اس تاریخ سے اپنی نئی تہذیب کو ابھارا ہے۔1912ء تک وہاں جو ملوکانہ نظام نافذ تھا اسے سمجھے بغیر ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ چین بیسویں صدی میں موجودہ عہد میں کیسے داخل ہوئے۔ آج بھی چین میں انقلاب کے تین مرحلوں یا قائدین کا ذکر کیا جاتا ہے۔ سن بات سن‘ مائوزے تنگ‘ ڈنگ پائوپنگ‘ درمیان میں چیانگ کائی شیک کا زمانہ بھی آیا۔ جدید چین اسے نظر انداز کرتا ہے۔ کیونکہ چیانگ کی کشمکش کمیونسٹ پارٹی سے رہی۔ بالآخر مائوزے تنگ کی قیادت میں چین نے چیانگ کائی شیک کو تائیوان کے جزیرے تک محدود کر دیا۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ جب اقبال نے گراں خواب چینیوں کے سنبھلنے کی بات کی تھی تو یہ اسی چیانگ کائی شیک کا زمانہ تھا۔ جنگ عظیم دوئم میں یہ چین کے قائد تھے۔ مجھے وہ تصویر یاد آ رہی ہے جس میں سٹالن‘ ٹرومین‘ چرچل کے ساتھ جیانگ کائی شیک کی تصویر تھی جو شاید کسی بحری جہاز میں ملے تھے تاکہ جنگ کی منصوبہ بندی میں اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ درست یاد نہیں‘ اتنا یاد ہے کہ اس زمانے کے عالمی لیڈر یہی چار افراد تھے۔ تاریخ بہت ظالم ہے۔ بہت کچھ روندتے گزرجاتی ہے۔ بہرحال مائوزے تنگ کے انقلاب کے بعد چین نے دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا سیکھ لیا۔ اس زمانے میں بھی بہت غلطیاں ہوئیں۔ ثقافتی انقلاب پر بہت بات ہوتی ہے اور بہت سی باتیں ہیں۔ مگر چین نے اس پورے دور پر تجزیے تو کئے‘ مگر اس سارے عہد کا اپنی تاریخ کا حصہ بنایا۔ جب مائوزے تنگ نے اپنے آخری ایام میں ہواگوفینگ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔تو ڈنگ یائوپنگ منظر سے ایک طرح ہٹ گئے تھے۔کسی ستم ظریف نے تبصرہ کیا کہ گویا بنو امیہ کی حکومت آ گئی ہے۔ ڈنگ یائو پنگ جلد ہی ابھر کر واپس اقتدار میں آئے۔ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ دنیا بدل چکی ہے اگر ہمیں دنیا سے قدم ملا کر چلنا ہے تو ہمیں اپنے اقتصادی نظام کو بدلنا ہو گا۔ کمیونسٹ نظام میں اس کی گنجائش نہ تھی۔ مگر انہوں نے یہ گنجائش پیدا کی۔ اقتصادی نظام بدل ڈالا اور سیاسی نظام وہی رکھا۔ وہی یک جماعتی حکومت‘ کمیونسٹ پارٹی کی بالادستی۔ بہت سوچے سمجھے طریقے سے وہ آگے بڑھتے گئے حتیٰ کہ موجودہ دور آ گیا۔ ان کے ہاں مذہب کی بھی ایک الگ شکل ہے۔ تاوقت‘ کنفیوژن ازم ان کے ہاں اپنا نیا دائرہ اثر رکھتے ہیں۔ مگر وہ بنیادی طور پر مذہب نہیں‘ ایک طرح سے تہذیبی روایت ہے۔ چین کو اسلام‘ ہندو مت کے ساتھ دنیا کی تین عظیم روایتوں میں گنا جاتا ہے۔ مگر یہ روایت غیر مذہبی تھی۔ بدھ مت کے اثرات بھی چین میں آئے‘ مگر الگ انداز میں۔ یہ ایک بہت دلچسپ مطالبہ ہے۔ ان کی پوری تاریخ کے پس منظر میں یہ گنجائش تو ہے کہ آپ کسی کو کرپشن کے جرم میں سر پر گولی مار کر ختم کر ڈالیں مگر یہ ایک ایسا ماڈل ہے‘ جسے چین کی تاریخ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے‘ صرف کمیونسٹ پس منظر میں نہیں‘ بلکہ چین کے اپنے پس منظر میں بھی۔ اس کے باوجود بھی جو یہ سمجھتا ہے کہ چین میں کرپشن نہیں ہے۔ وہ غلطی پررہے۔ وہاں کی کرپشن کے واقعات تو اب باہر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے۔ یہ نظام جہاں جاتا ہے‘ اپنے ساتھ بہت سے مسائل لے کر جاتا ہے۔ یہ اس نظام زر کا حصہ ہے۔ جب اسلام میں پہلے پہل تمول اثرات آئے۔ دولت کی چمک نظر آئی۔ تو ہمارے اس زمانے کے قائدین کو بھی اس لعنت سے نمٹنے کے لئے محنت کرنا پڑی۔ یہ دو چیزیں ایسی ہے۔ جتنا کوئی معاشرہ زر پرست اور زر نہادہو گا۔ وہاں اس کرپشن سے بچنا آسان نہ ہو گا جسے مالی کرپشن کہا جاتا ہے۔ اس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں‘ مگر یہ ایک ایسی وبا ہے جو دولت کے ساتھ آتی ہے۔ جمہوری ملکوں نے اس کے راستے میں اپنے طریقے سے دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ معاشرے جنہوں نے تاریخ کا سفر مختلف انداز سے طے کیا ہو‘ ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ ہم جن ایشیائی ٹائیگر کا تذکرہ کرتے تھے۔ وہاں بھی کوئی ایسا جمہوری نظام نہ تھا جس کا جمہوریت کے حوالے سے ذکر کیا جا سکے۔ ملائشیا ‘ سنگا پور‘ کوریا سب کے حکمران اس لحاظ سے تو قابل تحسین ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے قوم کو متحد کیا اور اسے ترقی کے سفر کی طرف لے کر چلے۔ مگر ہیومن رائٹس کے حوالے سے وہ کوئی آئیڈیل نہیں ہیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو اپنی اپنی طرح سے جمہوریت کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ آپ اگر وسط ایشیا میں جائیں جہاں اکثریت کا مذہب اسلام ہے‘ مگر جو ایک طویل عرصے تک روسی کمیونزم کے نرغے میں رہے ہیں اور خود وہاں کی تاریخ بھی مختلف ہے تو آپ کو وہاں کا معاشرہ بھی مختلف نظر آئے گا۔ مشرق بعید میں مجھے نہیں معلوم کیا وجہ ہے‘ یہ زرد رنگت والی اقوام کے ڈی این اے کی بات ہے یا ان کی اپنی تاریخ ہے یا وہاں کے حکمرانوں کا کمال ہے۔ ان سب ممالک میں ترقی کا اپنا سفر ہے جو قابل تعریف ہے‘ مگر اسے پاکستان کے معاشرے سے تشبیہ نہ دیں۔ ہمارے ہاں یہ جمہوری جذبہ صرف انگریز کی آمد کا اثر ہے یا خود یہاں کی تاریخ کے پس منظر میں یہ پودا یہاں جڑ پکڑ سکا ہے ۔اس میں بڑے مباحث ہیں‘ یہ لوگ یہاں خدمت کی قدر کرتے ہیں‘ مگر جبرو تشدد کی نہیں۔ ہمارے ہاں ایک جنرل اعظم خاں تھے جو مشرقی پاکستان میں گورنر کی حیثیت سے بڑے مقبول ہوئے۔ اس لئے کہ انہوں نے لوگوں کی خدمت کے بڑے کام کئے۔ اتنے مقبول کہ ایوب خاں کو انہیں واپس بلانا پڑا اور جب بنگالیوں کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے ان کے حق میں مظاہرہ کیا۔ ان جنرل اعظم خاں نے کراچی میں مہاجروں کی آباد کاری کا تیز رفتاری سے کام کر کے نام کمایا۔ تاہم لاہور میں 53ء کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہونے کی وجہ سے انہیں یہاں کوئی نیک نامی نہ ملی۔ ہمارے ہاں جو لوگوں کی خدمت کرتا ہے‘ ان سے محبت کرتا ہے‘ وہی نام کماتا ہے۔ اپنی روایات ‘ تہذیب کو نظر انداز کئے بغیر ترقی کا کوئی ماڈل اپنا کر ہی ہم نیک نام ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ترقی کا سفر رک چکا ہے۔ اس کی وجہ جو کچھ بھی ہو‘ مگر اس کا جواب ان ماڈل میں نہیں ملے گا‘ جو ویسے تو ہمیں بڑے عزیز ہیں‘ مگر ہماری تاریخ کے پس منظر میں ہمارے لئے ان کی بہت سی باتیں ہیں جو فائدہ مند نہیں۔ ہم ایک خالص جمہوری معاشرے ہی میں ترقی کر سکتے ہیں‘ وگرنہ سارا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ اس وقت بھی جگہ جگہ بانت بانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔اگر قومی سطح پر بھی ہم جو تم پزار شروع کر دیں تو نہ ہم ترقی کر سکیں گے نہ ہمارا سیاسی نظام چل سکے گا۔ غور کیجئے‘ چین نے ترقی کی‘ مگر اپنے سیاسی نظام کو نہیں چھیڑا۔ اسے فطری طور پر آگے بڑھنے کے لئے چھوڑ دیا۔ روس نے یہ غلطی کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ بالآخر پیوٹن نے آ کر کئی اقدام کئے اورروس کو دوبارہ اپنے تاریخی دھارے سے منسلک کیا۔ پاکستان میں نہ زار شاہی رہی ہے نہ چین کی طرح مختلف خاندانوں کی ملوکیت‘ ہم سے زیادہ بکھرا ہوا معاشرہ بندروں کا تھا۔ انہوں نے اس پر قابو پایا۔ حالانکہ شروع میں ان کے ہاں بھی ترقی کا سفر رکا رہا۔ پوری دنیا میں بھارت کی ترقی کا مذاق اڑتا تھا۔ تین فیصد ترقی۔ ہندو شرح نمو۔یہ پھبتی علمی کتابوں میں بھی درج ہے‘ ہمیں عقل کرنا چاہیے۔ ہم نے ترقی کا سفر شروع نہ کیا تو معاشرہ متحدہ نہ رہ سکے گا اور ہاں یہ بھی بتا دوں لوگ اس کو برداشت نہ کر سکیں گے۔ دوبارہ یاد دلا دوں‘ یہ تنبیہ کسی ایک طبقے کے لئے نہیں ہے۔ صرف حکومت‘ صرف اپوزیشن‘ صرف نادیدہ قوتوں کے لئے نہیں۔ سب کے لئے ہے۔ ان کے لئے بھی جن کا میں نے تذکرہ نہیں کیا۔