وکیلوں کی ہلڑ بازی اورلاقانونیت حد سے گزر چکی ہے۔ یہ آئے دن ہنگامے ہڑتالیں کرتے‘ ججوں اور انتظامی افسروںکو ڈراتے دھمکاتے‘ بلیک میل کرتے ہیں۔ وکلاء خود کو معاشرہ اور ریاست سے بڑا سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے آپ کو قانون کا ماتحت نہیں بلکہ اُسے اپنے تابع سمجھتے ہیں۔ لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلاء کا حملہ پاکستان نہیں دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ جس جگہ کو جنگ کے دوران میںدشمن فوج بھی نشانہ نہیں بناتی اس پر اپنے ہی ملک کے قانون دانوں نے ہلّہ بول دیا۔ وکلا ء کا جارحانہ رویّہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ وکیلوں کی جانب سے جتھے بنا کرسِول‘ سیشن ججوں سے من پسند فیصلے لینا ‘ ججوں کوکمروں میں بند کردینا‘ ججوں کے خلاف جلوس نکالنا‘ گروہ بنا کر انتظامی افسروں کو ڈرا دھمکا کر اپنی ناجائز بات منوانا یہ سب واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ وہ عدالتی کاموں کا بائیکاٹ کرکے ججوں ‘ انتظامیہ اور پولیس کو دبائو میں لاتے رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر مقدمات کی تیز سماعت کرنے کی خاطر سپریم کورٹ کوئی پالیسی بنائے تو یہ اسے ناکام بنانے کے لیے بھی ہڑتال کردیتے ہیں ‘ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو پالیسی بدلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ماڈل کورٹس کے معاملہ میں ایسا ہوچکا ہے۔ وکلاء کے مسلسل جارحانہ طرزِعمل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جو بھی غیر قانونی کام کرلیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں کوئی کھڑا نہیں کرسکتا‘ انہیں کبھی سزا نہیں ہوسکتی۔ ہڑتال اُن کا ایک موثر ہتھیار ہے۔ ججوں اور وکیلوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ججوں کی ایک بڑی تعدا دماضی میں وکیل رہ چکی ہے اور ان کے آپس میں معاشرتی تعلقات ہیں‘ مشترکہ مفادات ہیں ۔ پولیس وکیلوں کو گرفتارکرنے سے ڈرتی ہے۔ اگرکسی وکیل کو بالفرض حراست میں لیا جائے تو جج فوراً اس کوضمانت پر رہا کردیں گے۔بار اور بینچ میں گہرا تعلق ہے۔ لاہور کے واقعہ میں ہم نے دیکھا کہ گرفتار وکلا ء کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا توجج نے انہیں سیدھا عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔پولیس کو جسمانی ریمانڈ دیا جاتا توملزم وکلا ء پولیس کی تحویل میں رہتے لیکن معززجج صاحب نے مناسب نہیں سمجھا کہ دہشت گردی کے مقدمہ میں پولیس ملزموں سے تفتیش کرے۔ جوڈیشل ریمانڈ دینے کا ملزم کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ضمانت پر رہائی کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے جو جسمانی ریمانڈ کے دوران میں نہیںدی جاسکتی۔ یہی ہم نے دیکھا کہ فوراً لاہور ہائی کورٹ میں ان ملزم وکیلوں کی درخواست ِضمانت دائرہوگئی ۔ وکیل اتنے نڈر‘ دیدہ دلیر ہوچکے ہیں کہ ماتحت عدلیہ تو کیاہائیکورٹ کے جج بھی ان سے محفوظ نہیں۔اگست دو ہزار سترہ میں انہوں نے لاہورہائی کورٹ کے ملتان بنچ میں ایک معززجج سے مقدمہ کی سماعت کے دوران میںشدید بدتمیزی کی‘ انہیں کمرہ عدالت چھوڑنے پر مجبور کردیا‘ توڑ پھوڑ کی اور ان کے خلاف جلوس نکالا۔ لیکن کسی شخص کوآج تک اس واقعہ میں سزا نہیں ہوئی ۔جب لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اس واقعہ کا نوٹس لے کر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تو وکیلوں نے ان سے بھی بد تمیزی کی‘ ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ جسٹس منصور علی شاہ توہینِ عدالت کی کارروائی پر ڈٹے رہے تو اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار وکلا کی مدد کو آگئے ‘ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کو اس معاملہ پرمزید کارروائی کرنے سے روک دیا ‘ معاملہ ر فع د فع کرادیا‘ مطلب یہ کہ حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ یہی وہ رویّہ ہے جس نے وکلاء کوا تنابے باک بنادیا ہے کہ وہ ہسپتال پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ ہنگامہ آرائی کرنے والے وکیلوں کا سب سے بڑا سہاراان کی تنظیمیں یا بار ایسوسی ایشنز اور کونسلز ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بار ایسوسی ایشنز کو حکومتیں بھاری فنڈز دیتی ہیں۔ یہ تنظیمیں تحصیل‘ ضلع‘ صوبہ اور ملکی سطح پر ہر جگہ موجود ہیں۔انکے عہدیداروں کا سالانہ انتخاب ہوتا ہے۔ سینئر وکلا کے گروپس بنے ہوئے ہیں۔ الیکشن مہم چلانے‘ ووٹ لینے کو یہ اپنے جونئیر وکلا ء کے مرہونِ منت رہتے ہیں۔ جب بھی نوجوان وکلا ء کوئی ہنگامہ کرتے ہیں تو یہ تنظیمیں اورسینئر وکلا ء ان کے بچا ئو کے لیے آگے آجاتے ہیں۔ حق‘ نا حق نہیں دیکھتے‘ صرف اپنے گروہ کے مفاد کا خیال رکھتے ہیں۔لاہور واقعہ کے بعد اکّا دکّاوکیل کے سوا سب وکیل لیڈرز حملہ آور وکلاء کے حق میں بولنے لگے۔ بڑے بڑے وکیل قوم سے معافی مانگنے کی بجائے ہسپتال پر حملہ کے جواز میں دلیلیں دے رہے ہیں۔ حملہ کرنے والوں کی حمایت کرکے اپنی لیڈری چمکا رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وکلاء نے جلوس نکال کر‘ پانچ چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دل کے ہسپتال پرحملہ اپنے دفاع میں کیا تھا۔ اور یہ کہ جب پولیس کو جلوس کا پتہ تھا تو اس نے انہیں ہسپتال پہنچنے سے پہلے روکا کیوں نہیں؟اگر پولیس وکلا ء کو روکتی ‘ انہیں منتشر کرنے کو راستے میں لاٹھی چارج کرتی یا آنسو گیس پھینکتی تو مشتعل ہجوم توڑ پھوڑ کرتا‘ گاڑیوں‘ دُکانوں پر حملے کرتا تو کہا جاتا کہ پولیس نے پُر امن جلوس کو پُر تشدد بنا دیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہسپتال پر حملہ کرنے والے بہت سے وکیلوں کے پاس پستول تھے جن سے وہ ہوائی فائرنگ کرتے رہے‘ دکانیںبند کرواتے رہے۔ اگر پولیس اور وکلاء میں فائرنگ کا تبادلہ ہوجاتا ‘ لاشیں گرتیں تو کیسا بڑا بحران پیدا ہوجاتا۔ وکیلوں کی ہسپتال پر یلغار ریاست کی کمزوری کی عکّاس ہے۔ ملک میں لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے۔ وکیل‘ ڈاکٹر جب چاہے ہڑتالیں کرکے نظام کویرغمال بنالیتے ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں طلبا تنظیموں کی پُرتشدد حرکتیں بڑھ رہی ہیں۔ میڈیاکی سنسنی خیزی اس پر مستزاد ہے۔ ریاستی اداروں نے صورتحال کنٹرول کرنے کو سخت‘ موثر اقدامات نہیں کی تو اسکا نتیجہ مکمل انارکی کی صورت میں نکلے گا۔