آج 10محرم 61ھجری ہے۔ یہ میدانِ کربلا کا منظر ہے، سامنے فوجوں کا بحر بیکراں ہے۔ گردوپیش ویرانی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ عزیزوں، بھائیوں، بھتیجوں اور اولاد کے دلکش چہرے امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تھے۔ اندر خیمے میں پردہ دار عورتیں اور بچے بھی تھے۔ دریا پر یزیدی فوج کا پہرہ تھا اور حسین کے ساتھیوں تک ایک قطرۂ آب پہنچنے کی اجازت نہ تھی۔ بے زبان بچے پیاس کی شدت سے بے تاب نظر آ رہے تھے مگر غرورِ طاقت کے تمام حربے اور ایذا رسانی کی شدید سے شدید چالیں بھی امام حسین کو مجبور نہ کر سکیں کہ وہ ایک ناجائز حکمران کو جائز حاکم تسلیم کرلیں۔ آج دس محرم ہے اور چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ جو اس نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا اور جسے دیکھنے کی تاب چشم فلک میں تھی اور نہ ہی دیدۂ بشریت میں تھی۔ میدان کربلا میں آپ کے سارے پیارے، سارے جگر گوشے اور سارے جاں نثار ایک ایک کر کے راہِ حق میں قربان ہوتے گئے۔ آخر میں آپ نے تلوار نیام سے نکالی اور جتنا فریضۂ حق کی ادائیگی کا حق تھا وہ آپ نے آخری سانس تک ادا کیا۔ آپ کا جسم زخموں سے چور ہو گیا۔ آپ گھوڑے سے زمین پر گرے اور شہادت حق کی گواہی دے کر عظیم المرتبت شہید کا مرتبۂ بلند حاصل کر لیا۔ یوں تو عالم کا ہر واقعہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے کسی خاص جگہ، کسی خاص علاقے، کسی خاص طبقے اور کسی خاص جماعت سے متعلق ہوتا ہے مگر واقعے کے ساتھ جو نتائج اور خصوصیات وابستہ ہوتی ہیں وہ اسے علاقائی سے عالمی بنا دیتی ہیں۔ واقعہ کربلا عراق کی سرزمین میں پیش آیا مگر اس واقعے کا لب لباب یہ تھا کہ ایک طرف ظالم تھا اور دوسری طرف مٹھی بھر مظلوم تھے۔ ان مظلوموں کی سربراہی کا شرف خانوادۂ نبوت کے جلیل القدر فرزند کے ہاتھ میں تھا۔ مظلوم کے ساتھ ہمدردی فطرت بشری میں داخل ہے۔ ایسے مواقع پر انسانی احساس و شعور صرف ظالم و مظلوم کو دیکھتا ہے اس کے مذہب و اعتقادات کو نہیں دیکھتا۔ ایک ممتاز عالم دین نے یہاں ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ حسینؓ کی مظلومیت بے بسی کی مظلومیت نہ تھی۔ امام حسینؓ نے ایک مسلک حق اور ایک اصول کی سربلندی کے لیے ان تمام مصائب کو برداشت کیا اور بالآخر اپنی اور اپنے پیاروں کی جان جان آفریں کے حضور پیش کر دی۔ اس تعمیلِ حق کا نام قربانی ہے۔ حضرت حسین بن علیؓ نے جو قربانی پیش کی وہ انسانی تاریخ کا ایک بے مثال کارنامہ ہے۔ حق گوئی، حق پرستی اور حق پروری کی راہیں مسدود کی جا رہی تھیں۔ اقتدار پر قابض قوتیں انسانی آزادی کو سلب کر کے، اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کر کے اپنی غلامی کا اقرار لے رہی تھیں۔ حضرت امام حسینؓ نے جس عظیم مقصد کے لیے اتنی عظیم قربانی دی اس میں کوئی ایسا امر نہ تھا جو مختلف مذاہب میں اختلافی حیثیت رکھتا ہو۔ تمام مذاہب کی اساس تہذیب اخلاق اور تکمیل بشریت ہے۔ اگر ہم بنیادی نقطے کی طرف آئیں تو سوال صرف اتنا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں قتل کیے گئے؟ کیا وہ کسی قصاص یا خدانخواستہ کسی جرم کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ نہیں ہرگز نہیں وہ قتل صرف اس بنیاد پر کیے گئے کہ انہوں نے بیعت یزید نہ کی۔ اس کے ساتھ جڑا ہوا ،اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ انہوں نے یزید کی بیعت کیوں نہ کی؟ سیدنا حسنؓ کی زہر خورانی سے شہادت کے بعد بیس برس حضرت معاویہ کے دورِ اقتدار میں گزارے۔ اس سارے عرصے میں آپ نے حضرت معاویہؓ کی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا۔ حضرت امام حسنؓ نے مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی بے شمار کوتاہیوں کے باوجود اسے اسی لیے قبول کیا کہ مسلمانوں کو باہمی آویزش و چپقلش سے بچایا جا سکے مگر حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد ایسا کیا واقعہ ہوا کہ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور تمام تر دبائو کے باوجود اس کی بیعت نہ کی۔ اس انکار کا سبب یہ تھا کہ ریاست مدینہ میں اس سے پہلے کوئی ایسی روایت نہ تھی کہ اقتدار باپ سے بیٹے کو منتقل کیا جائے۔ نیز یزید ایک ظالم اور فاسق و فاجر شخص تھا۔ یہاں حضرت معاویہؓ کے بعد مسلمانوں کے طرز سیاست نے ایسا موڑ کاٹا کہ جس کی اس سے پہلے تاریخ اسلامی میں کوئی نظیر نہیں ملتی تھی۔ یہ موڑ خلافت سے ملوکیت کی طرف تھا۔ اسی لیے جناب امام عالی مقام ؓنے اس ملوکیت اور شخصی بادشاہت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شہادت امام حسینؓ میں کسی ایک علاقے، کسی ایک مذہب، کسی ایک عقیدے اور کسی ایک زمانے کے لیے نہیں بلکہ عام بشریت و عالم انسانیت کے لیے بڑا واضح سبق ہے۔ سبق یہ ہے کہ حق کی سربلندی کے لیے جان کی قربانی گھاٹے کا نہیں بہت بڑے منافع کا سودا ہے۔ دس محرم الحرام کو دنیا کے مختلف علاقوں میں عزا داری مختلف مراسم کی شکل میں منائی جاتی ہے۔ کہیں ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں، کہیں منقبت حسین ؓکے لیے مجالس منعقد کی جاتی ہیں، کہیں تشنگانِ کربلہ کی یاد میں شربت اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور کہیں سینہ کوبی کی جاتی ہے۔ اس دس محرم کو بھی ایسا ہی ہو رہا ہے مگر آج محرم 1441ھجری اس کی کرہ ارض پر ایک ایسا منطقہ بھی ہے جہاں وقت کے یزید کے خلاف اسوہ شبیری پر عمل پیرا ہو کر کشمیر کے پیروجواں، حتیٰ کہ خواتین اور بچے بھی سینہ سپر ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری رسم شبیری ادا کرتے ہوئے کشمیریوں پر 35روز گزر چکے ہیں۔ وہ بدترین کرفیو کی زد میں ہیں۔ کرفیو کے دن اور کرفیو کی راتیں۔ ہم گزشتہ 35روز سے وہی منظر بیان کر رہے ہیں۔ اب یہ منظر اور بھی بھیانک ہوتا جا رہا ہے۔ دکانیں بند، کاروبار بند، سڑکیں اور گلیاں بند، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ بند۔ وقت کا یزید مودی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ضمیر عالم گہری نیند سو رہا ہے کیونکہ معاملہ جانوروں، پرندوں یا دیگر مذاہب کے انسانوں کا نہیں۔ مسلمانوں کا ہے۔ آج ایک بار پھر خونِ مسلم کی ارزانی ہے مگر مقام افسوس بلکہ مقام صد افسوس یہ ہے کہ خود صاحب ثروت مسلمان حکمران خون کی اس ارزانی پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بظاہر ظالموں کی پذیرائی بھی کر رہے ہیں۔ کشمیری تو ظلم کے خاتمے کے لیے، یزید کی غلامی سے نجات کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے پر آمادہ اور سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ وہ ظلم کی منہ زور موجوں کا پامردی اور بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ البتہ ساحل سے نظارہ کرنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ساڑھے سات ارب انسانوں کے لیے شہید انسانیت کی نصیحت یہ ہے کہ ظلم کے مقابلے میں سر جھکانے کے بجائے سر کٹا دینا ہی اصل شرفِ آدمیت ہے۔ انسانیت کے نام حسینیت کا یہی پیغام ہے۔