پاکستان آرمی کی طرف سے انتخابی امور میں معاونت کے لیے قائم کئے گئے مرکز کا دورہ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کئی خدشات کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوج کا انتخابات میں براہ راست کوئی کردار نہیں اور فوج اپنے مینڈیٹ میں رہتے ہوئے الیکشن کمشن سے تعاون کرے گی۔ جنرل باجوہ کی طرف سے یہ کہنا حوصلہ افزا ہے کہ وہ عوام کو جمہوری حق کے استعمال کے لیے پرامن سازگار ماحول فراہم کریں گے۔ آرمی چیف کی طرف سے مداخلت سے پاک انتخابات کی یقین دہانی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بعض حلقے فوج کے سیاسی کردار کی بحث چھیڑ کر جنرل باجوہ کی اس محنت کو ضائع کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے جمہوری استحکام کے لیے جاری رکھی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں فوج کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ ایک جمہوری معاشرے کی آرزو رکھنے والے اس کردار کو قبول نہیں کرتے مگر پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کی مباحث عموماً اس وقت گرم ہوتی رہی ہیں جب کبھی سیاستدانوں کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ سول ملٹری تعلقات کی جو جہتیں ایک مہذب معاشرے میں پروان چڑھتی ہیں ہمارے ہاں وہ دکھائی نہیں دیں۔ جن معاشروں نے آمریت سے جمہوریت کی طرف سفر کیا وہاں سول ملٹری یا بادشاہت اور عوام کے مابین دستور کی نوعیت، شہری آزادیوں، اداروں کے دائرہ کار اور ہر فرد اور ادارے کو اپنے متعینہ فرائض تک محدود رکھنے پر مکالمہ ہوا۔ برطانیہ، امریکہ اور فرانس جیسی جمہوریتوں میں یہ مکالمہ صدیوں پر محیط ہے۔ عوام نے جب کبھی حق حکمرانی حاصل کیا اپنی صلاحیت اور استعداد کے نمونے پیش کرنے کے بعد حاصل کیا۔ ہمارے ہاں سیاستدان جمہوری اصولوں پر سیاست نہیں کرتے۔ سیاسی پارٹیوں کا ڈھانچہ جمہوری نہیں بلکہ پارٹی قیادت کی آمرانہ خواہشات پر استوار کیا جاتا ہے۔ پارٹی کے اندر اختلاف رائے کا مطلب پارٹی سے غداری تصور کیا جاتا ہے۔ آج جو لوگ اپنی سابقہ جماعتیں چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں جا رہے ہیں وہ پارٹی کے مخالف نہیں تھے بلکہ کچھ معاملات میں قیادت سے اختلاف رکھتے تھے جسے برداشت نہیں کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے تحفظ کا فریضہ ساتھ ساتھ انجام دیا۔ جنگ کی ضروریات نے بعض معاملات پر فوج کی رائے کو بالادست رکھا لیکن جہاں جمہوری نظام کی بات آتی تھی یہ سب لوگ خود کو سیاست سے الگ کرتے رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف جب آرمی چیف تھے تو تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے دھرنا دیا۔ اس دھرنے نے ایک وقت تاثر یہ پیدا کیا کہ شاید فوج اور انٹیلی جنس ادارے نوازشریف حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ ایسا تاثر پیدا کرنے میں خود اس حکومت اور اسکے حامیوں نے خاصا زور صرف کیا۔ بعدازاں جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر یہ دھرنا ختم ہوا۔ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات اور انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت رضامند نہیں تھی لیکن فوج نے حکومت کو سمجھایا کہ جمہوری عمل اپوزیشن کی شکایات کو نظر انداز کرنے سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی اسی وقت قائم ہوتی ہے جب حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ 1973ء کا آئین پاکستانی شہریوں کی سوفیصد ضروریات پوری نہیں کرتا مگر چونکہ اس پر زیادہ سے زیادہ سیاسی قوتوں کا اعتماد ہے اس لیے آئین کی بالادستی پر کسی کو شک نہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حکومتیں اپوزیشن جماعتوں کے جمہوری مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ آئین اور پارلیمانی روایات کو حکومت نظرانداز کرتی ہے تو گویا وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہونے لگتی ہے جن کا دفاع وہ کسی زمانے میں خود کیا کرتی تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطور آرمی چیف انتخاب اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے کیا تھا۔ جنرل باجوہ کی جمہوریت کے لیے محبت اور جمہوری قیادت کے لیے احترام نے میاں نوازشریف کو ترغیب دی کہ وہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی بجائے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف تعینات کرنے کی منظوری دیں۔ ڈان لیکس کا معاملہ جب سامنے آیا تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی قیادت کو موقع دیا کہ وہ فوج اور ملکی سلامتی کے متعلق اپنا نقطہ نظر بہتر بنائے۔ جنرل باجوہ کی طرف سے جمہوریت کوبالادست تسلیم کرنے کی دوسری مثال سینٹ میں قومی سلامتی سے متعلق بریفنگ ہے۔ انہوں نے اراکین سینٹ کو اس وقت راولپنڈی میں تحریک لبیک کے دھرنے کے پیچھے فوج کے کردار سے متعلق سوال پر جواب دیا کہ ایسا ثابت ہو جائے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کو اپنے آخری ڈیڑھ سال میں جو قانونی مشکلات پیش آئیں وہ فوج کی وجہ سے نہیں بلکہ پانامہ لیکس میں منکشف ہونے والے ان آف شور اثاثوں کی وجہ سے آئیں جو کئی عشروں سے نواز خاندان کے استعمال میں تھے مگر ان کی تفصیلات پاکستان میں کسی ریکارڈ کا حصہ نہ تھیں۔ اس عرصہ میں بار بار حکومت کا تختہ الٹائے جانے کی باتیں کی گئیں لیکن سابق حکومت کی جانب سے فوج اور عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیز حکمت عملی کے باوجود فوج نے خود کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رکھا۔ گزشتہ ہفتے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقے دہشت گردوں کا ہدف رہے۔ تین خودکش حملوں میں 175 کے قریب لوگ شہید ہوئے۔ دہشت گردوں کا ہدف انتخابی مہم اور امیدوار ہیں۔ پولیس اور دوسرے سویلین سکیورٹی ادارے اپنے طور پر حتی الوسعٰ محنت کر رہے ہیں لیکن ایسی صورت حال فوج کے وسیع تر کردار کا تقاضا کرتی ہے۔ انٹیلی جنس ادارے کئی ہفتوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ ملک دشمن عناصر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام سیاسی قائدین کی جانوں کو خطرہ ہے۔ ان رپورٹس اور دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے بعد لازم تھا کہ فوج انتخابی عمل کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ پاک فوج نے انتخابی عمل میں معاونت کا جو مرکز قائم کیا ہے وہ نگران حکومت اور الیکشن کمشن کو مدد فراہم کرنے تک محدود ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو دل سے قبول کرنے اور انتخابات کے بروقت انعقاد کی طرح ایک بار پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ فوج کا انتخابات میں براہ راست کوئی کردار نہیں۔ اس سے بڑھ کر خوش آئند بات کیا ہو سکتی ہے کہ جس ادارے پر جمہوری عمل کو تباہ کرنے کے الزامات رہے ہیں وہ ادارہ ملکی سرحدوں کی طرح جمہوری عمل کا بھی محافظ بن کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ آرمی چیف واضح کرر ہے ہیں کہ فوج اپنے مینڈیٹ تک محدود رہے گی۔ یقینا وہ جس مینڈیٹ کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آئین میں درج کردار ہے۔ آئین کی بالادستی پر ریاستی اداروں کا یقین بتاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔