ٹی وی چینلز پہلے ہی زیادہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا، عزت ماب چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم سے پڑوسی ممالک کے چینل مکمل طورپر بند ہوگئے، ہمارے لئے ایک آپشن اور کم ہوگئی۔ پیمرانے جس مستعدی اورولولے سے اس پر عمل درآمد کرایا، اس سے حیرت ہوئی ، یقینا اس پھرتی کے پیچھے کچھ اور فیکٹرز بھی پس پردہ کارفرما ہوں گے۔ پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلز کو اس سے یقیناً فائدہ پہنچے گا۔ اس پابندی کے چکر میںمگر سپورٹس اورڈاکومینٹری چینل بھی بین ہوگئے۔پاکستانی ڈرامہ چینلزکو مجبوراً کبھی چند منٹ کے لئے دیکھنا پڑے تو وحشت ہونے لگتی ہے۔ حقیقت سے دور، انتہائی مصنوعی فضا میں بنے یہ ڈرامے معلوم نہیں کون دیکھتا ہوگا۔ جو چینل گھما لو، ایک جیسے چہرے، میک اپ اور موضوعات نظر آتے ہیں۔ ایک زمانے میںاکلوتا پی ٹی وی تھا ،مگر اس کے ڈراموں میں شاندار قسم کا تنوع ملتا تھا۔ نت نئے موضوعات ، عمدہ ڈائریکشن اور لاجواب اداکاری۔یہ ایک مفروضہ اور غلط متھ ہے کہ معیار کا مسابقت یا مقابلے سے کوئی براہ راست رشتہ ہے۔ مجھے آج بھی وہ شام یاد ہے جب پی ٹی وی کے بانی اسلم اظہر نعیم بخاری کے ایک ٹاک شو میں مہمان بنے۔اسلم اظہر نے اپنی گفتگو میں یہ نکتہ اٹھایاتھا۔ نعیم بخاری کے ذکر سے ویسے ہی یاد آیا کہ عمران خان نے ان سے کوئی کام نہیں لیا۔ تحریک انصاف میں موجود تقریباً سب قابل ذکر لوگ کسی نہ کسی جگہ اکاموڈیٹ ہوگئے ہیں۔ نعیم بخاری محروم رہے، حالانکہ یہ بہت سوں سے بہتر ہیں۔اگر خان صاحب انہیں اپنے سیاسی ترجمان کے طور پر رکھتے تو نعیم بخاری کی بذلہ سنجی اور شگفتہ فقرے بازی حکومت کا خاصا بوجھ کم کر دیتی۔ میڈیا کو وہ اپنے لائٹ جملوں سے اچھامواد دیتے اور اپوزیشن کے حملوں کا مناسب جواب بھی مل جاتا۔ خیر یہ تو عمران خان کا مسئلہ ہے، وہ جانیں اور ان کے پارٹی کارکن۔ نعیم بخاری اس زمانے میں پی ٹی وی پرشائد سٹوڈیو ڈھائی کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔اسلم اظہر کی گفتگو میں وہ سحر تھا کہ نعیم بخاری اشتہارات کے لئے بریک لینا ہی بھول گئے۔مارکیٹ میں مسابقت اور مقابلہ کی فضا کے حوالے سے بات چل نکلی کہ ایک سے زیادہ ادارے میدان میں ہوں تو معیار بہتر رہتا ہے۔ اسلم اظہر نے نعیم بخاری سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پچھلے بیس تیس برسوں سے یورپ کا نمبر ون ٹی وی چینل کون سا ہے؟ نعیم بخاری نے جواب دیا ،بی بی سی ۔اسلم اظہر نے کہا،’’ بی بی سی کو کسی قسم کا مقابلہ درپیش نہیں۔ کوئی اور چینل ملک میں موجود نہیں، اس کا مقابلہ صرف اس کے اپنے پروفیشنل سٹینڈرڈ سے ہے اور وہ اسی کو قائم رکھتے ہوئے نمبر ون چلا آ رہا ہے۔‘‘(یاد رہے کہ اس وقت برطانیہ میں سکائی ٹی وی شروع نہیں ہوا تھا۔) نعیم بخاری مبہوت بیٹھے یہ سب سنتے رہے، مجھے یقین ہے کہ اس شام ناظرین کی بھی یہی کیفیت ہوگی۔آج پاکستان میں درجن بھر نام نہاد انٹرٹینمنٹ چینلز ہیں،بظاہر تو مقابلہ سخت ہے، بہتر مواد آنا چاہیے ، لیکن دیکھنے والوںکے لئے کچھ نیا نہیں۔ یوں لگتا ہے ان کے مالکان اور ٹاپ مینجمنٹ ہر ماہ اکٹھے بیٹھ کر یہ طے کر لیتے ہیں کہ کیا چلانا ہے اور جو بھی نشر کیا جائے، وہ ایک دوسرے سے ملتا ہو، خبردار جو کسی نے ورائٹی پیدا کرنے، کچھ نیا سوچنے کی زحمت فرمائی۔ مارننگ شوز کی حالت تو مزید خوفناک ہے۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں سے شادیاں ہی دکھائی جا رہی ہیں۔ معلوم نہیں انہیں کس نے بتایا ہے کہ شادیاں زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ بھائی لوگو ہر وہ چیز دیکھی جاتی ہے جو دلچسپ ہو، نئے پن اور اچھے طریقے سے پیش کی جائے۔ مارننگ شوز میں تو لگتا ہے سکرپٹ لکھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی،مہمان سیٹ پر اکٹھے کر کے انہیں چھوٹ دے دی کہ جو جی میں آئے بولتے رہو۔ کچھ ہی دیر میں دیکھنے والے کو ابکائی آنے لگتی ہے۔ ایک چینل نے جو ’’پالنے ‘‘ہی میںدنیا کانمبر ون چینل کہلانا شروع ہوگیا تھا، اس نے حال ہی میں بھارت کے مشہور ٹی وی شو’’ کون بنے گا کروڑ پتی ‘‘کی ایک نقل شروع کی ہے، ویسے تو یہ بھارتی شو بھی مغرب کی نقالی میں بنایا گیا۔ امیتابھ بچن اس کے میزبان ہیں۔اپنی باوقار شخصیت اور شائستہ گفتگو کی وجہ سے وہ پسندکئے جاتے ہیں، اگرچہ ان کے شو میں دانستہ گاڑھی سنسکرت آمیز ہندی شامل کر کے اس کی قبولیت گھٹا دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں اس طرز کا پروگرام شروع کرنا تھا تو اس کے لئے کئی مناسب لوگ ڈھونڈے جا سکتے تھے۔ ضیاء محی الدین رضامند ہوتے تو ان سے بہتر کوئی اور شخص نہیں۔ وہ دستیاب نہیں تھے تواور بھی کئی مل سکتے تھے، سینئرز میں سے طلعت حسین، راحت کاظمی وغیرہ یا پھر نعیم بخاری ہی سے بات کر لی جاتی۔ کسی پڑھے لکھے نسبتاً جوان اداکار کو بھی موقعہ دیا جاسکتا تھا۔انہوں نے نادیہ خان کوہوسٹ بنا دیا، جن کی شہرت بے مغز، بیکار، عامیانہ مزاح پر مبنی مارننگ شوز کرناہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کہ اس نام نہاد کوئز پروگرام کو دیکھنا کسی بھیانک تجربے سے کم نہیں۔ آدمی شرمندہ ہوتا ہے کہ اگر غلطی سے کسی بھارتی نے یہ پروگرام دیکھ لیا تو پاکستانیوں کی کتنی بھد اڑے گی؟پاکستانی ڈراموں اور پروگراموں کی یکسانیت اور بوریت سے ہر کوئی تنگ ہے۔اگلے روز ایک عزیزہ گھر آئی ہوئی تھیں، ٹی وی کی بات چھڑی تو بے ساختہ بولیں،’’ جن لوگوں نے چینلز پر پابندی لگائی ہے، انہیںکاش ایک شام کے لئے ٹی وی کے آگے بٹھایا جا سکے، پھر انہیں اندازہ ہوگا کہ جوموادوہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں، انہیں دیکھنا کس قدر بوریت آمیز اور تکلیف دہ کام ہے۔‘‘اس عفیفہ کو ہم نے فوری طور پر توہین عدالت کا خوف دلا کر خاموش کرا دیا، مگر یہ خیال ذہن میں آیا کہ زبردستی کسی کوکچھ بھی نہیں دکھایا جا سکتا اور نہ ہی دیکھنے سے روکا جا سکتا ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں بھارتی چینلز کی حمایت نہیں کر رہا، میرے جیسے لوگ عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی چینلز سے بھارتی ڈراموں کا مواد ختم کیا جائے۔ تاہم جو ہولناک متبادل سامنے آئے ہیں، ان کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اس قدر زوال پزیر ہوچکا ہے۔ ہم نے مین سٹریم میڈیا سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کی طرف توجہ کی اور جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ فیس بک اور ٹوئٹر کی دنیا میں بھی زیادہ دیر بسیرا نہیں کیا جا سکتا۔ ٹوئٹر تو خیر زیادہ ڈسٹربنگ ہے،اس آدمی کا تصور کریں جس کے سامنے ہر وقت سگنل جھلملا رہے ہیں، کبھی بتی سرخ ہوجائے ، کبھی اورنج۔ جسم اور ذہن ہر وقت ایک ایمرجنسی کی کیفیت میں، تنائو کا شکار رہیں۔ اس سے نکل ہی نہ پائیں۔ فیس بک نسبتاً مختلف ہے، مگر یہاں بھی ٹرینڈز غالب آ گئے ہیں۔ کسی بھی دن دو چار لوگ ایک خاص موضوع پر سٹیٹس لگا دیں، دو چار گھنٹوںمیں ہزاروں، لاکھوں لوگ وہی کر رہے ہوں گے۔ آدمی بوکھلا جاتا ہے کہ ہر جگہ ایک ہی بات چل رہی ہے، ہٹ کر کچھ پڑھنے کو مل ہی نہیں رہا۔ ذاتی طور پر مجھے تو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ کے سمندر میں اپنی پسند اورمرضی کے جزیرے تلاش کئے جائیں۔ یہاں پر بہت کچھ ہے۔ مطالعہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بے شمار ای بکس موجود ہیں۔ انگریزی میں تو خیر یہ تعداد لاکھوں کروڑوں تک پہنچ چکی ہے، اردو کی بھی بہت سی ای بک اب دستیاب ہیں، کوئی پڑھنے والا ہو، بے شمار فورمز ہیں، جہاں سے کتاب فری میں پڑھی جا سکتی ہے۔ دینی کتب کا بھی بڑا ذخیرہ نیٹ پر موجودہے۔فلموں اور موسیقی میں دلچسپی رکھنے والے اگر انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے تو وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ کتنے بڑے اہم بیش قیمت خزانوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ مختلف زبانوں میں دنیا کی بہترین موسیقی، فلم، ڈرامے، شارٹ فلمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پہلے لوگ عرب دنیا سے آنے والوں سے مشہور قاری حضرات کی کیسٹیں منگواتے تھے، آج آپ کہیں بھی ہوں، دنیا کے بہترین قاریوں کی زبانی قرآن کی تلاوت سن سکتے ہیں۔نعتیں، نشید غرض سب کچھ دستیاب ہے۔ اپنے ذوق کے مطابق لطف اندوز ہوں۔میں نے پچھلے چند دنوں میں بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں۔ٹیڈ (Ted)لیکچرزکے حوالے سے پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ مختلف شعبوں میں عالمی شہرت یافتہ ماہرین صرف اٹھارہ منٹ میں اپنے تجربات کا نچوڑ بیان کریں گے۔ اگر چاہیں گے تو اس گفتگو کا انگریزی ٹرانسکرپٹ بھی نیچے مل جائے گا، لفظ لفظ سمجھنا تب ممکن ہوجاتا ہے۔ اسی طرز کے بہت سے ویب پروگرام اور ٹاک شوزموجود ہیں، جہاں اشتہارات سے پاک معیاری گفتگو سنی جا سکتی ہے۔ انڈیا میں اس حوالے سے لگتا ہے خاصا کچھ کام ہوچکا ہے ۔ کئی ایسے لوگ جن کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، ان کے براہ راست انٹرویوز سنے ۔ دلچسپ بات ہے کہ چونکہ نیٹ پر گلیمر کا ایشو نہیں، اس لئے انٹرویو لینے والا بھی کوئی ڈرامے باز نہیں بلکہ حقیقی ماہر ہوگا، دیکھنے، سننے والے کو لطف آتا ہے۔ اس سب پر بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنی زندگی کے لمحات کو خوبصورت بنائیے اور اگر انٹرٹینمنٹ چینلز، سوشل میڈیا آپ کی تشفی نہیں کر رہا تو نئے جزیرے، نئے ساحل تلاش کیجئے۔ بہت کچھ ایسا موجود ہے جو آپ کی زندگی کو زیادہ خوبصورت، بامعنی بنا دے ۔ چوائس آپ کی ہے، روایتی لگے بندھے انداز میں وقت گزارنا ہے یا پھر کچھ نیا شامل کرناچاہتے ہیں۔