کیسے کیسے دعوے نہیں کئے جارہے تھے ملک میں انقلاب لانے کے،ایک خلائی مخلوق کو خیالی دشمن کے طور پر تشکیل دیا گیا اور اسے بے نقاب کرنے اور شکست فاش دینے کے،ووٹ کو عزت دینے کے اور جو دس سال حکومت کرنے کے بعد عوام کی قسمت نہ بدل سکے لیکن اگلے پانچ سالوں میں عوام کو خوشحالی اور روزگار کا لولی پاپ دینے کے۔کارکردگی کی بنیاد پر کلین سویپ کرنے کے۔ لیکن یہ تو الٹا جھاڑو پھر گیا۔ یہی ہوتا ہے جب زیادہ سیانے سیاستدان عوام کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اور انہیں بیوقوف سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں جتنے بھی انتخابات کسی بیرونی یا اندرونی اثر سے آزاد منعقد ہوئے ہیں ان میں عوام اتنی زور سے دھاڑتے ہیں کہ بڑے بڑے برج الٹ کے رہ جاتے ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔جہاں عوام نے کارکردگی پر ووٹ دیا وہاں نظر آ گیا، جہاں انہوں نے غصے کا اظہار کیا ہے وہ اور زیادہ پرجوش تھے۔ان انتخابات سے دو باتیں واضح ہو رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ اب صرف سڑکوں نالیوں ، لیپ ٹاپ، میٹرو بسیں اور موٹر وے بنانے سے کام نہیں چلے گا ۔ دوسری ؛2013 کے انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے جو مینڈیٹ چرانے کے الزامات تھے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ موجودہ انتخابات کے نتائج ان کے درست ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں۔سیدھاحساب کیا جائے تو موجودہ انتخابی نتائج کا اندازہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔مسلم لیگ (ن) کے 61 ارکان انہیں چھوڑ کرانتخاب سے پہلے ہی دوسری جماعتوں کو پیارے ہو گئے۔ تحریک انصاف نے 35 پنکچر کا الزام لگایا تھا انہیں بھی اگر شامل کر لیں تو مسلم لیگ (ن) کی 96 نشستوں پر شکست کی بنیاد پہلے ہی رکھی جا چکی تھی۔2013 میں مسلم لیگ (ن) نے 126 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس میں سے 96 نکال دیں تو باقی 30 بچتی ہیں جن پر انکی کامیابی کے بہتر امکانات تھے۔موجودہ صورتحال میں انکا 63 نشستوں پر کامیاب ہونے کا کریڈٹ اگر کسی کو دیا جا سکتا ہے تو وہ پنجاب حکومت ہے۔ اس بارے میں حمزہ شہباز نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں درست کہا کہ انہیں کارکردگی کی بنیاد پر پنجاب میں نشستیں ملی ہیں۔ جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت کی کارکردگی بھی اچھی ہوتی تو یہ نمبر بڑھ سکتا تھا۔لیکن ایک بات کا ادراک انہیں ضرور ہونا چاہیئے کہ وہ پہلے بھی آدھے پنجاب کی جماعت تھے اب بھی ہیں بلکہ مزید سکڑ گئے ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سکڑنے کی ایک ہی وجہ ہے کہ جیسے ہی لیڈران نے دونوں بڑی جماعتوں کو گھر کی لونڈی بنایا بحیثیت جماعت یہ کمزور ہوتی چلی گئیں۔دونوں کی قیادت نے اپنی اپنی پارٹی کو منظم جماعت بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جس کے نتیجے میںورکرز کی ایک فعال تعداد جو کسی بھی جماعت کی جان ہوتی ہے نا پید ہو گئی ہے جو انتخابات کے عمل سے لیکر کسی بھی سیاسی تحریک کے لئے جوہر ہوتی ہے۔سب سے بڑا نقصان جمہوریت کا ہوا ہے۔ اگر بڑی جماعتیں اس طرح لاچار ہوں گی جمہوریت کا سفر کیا خاک طے ہو گا۔اس حوالے سے تحریک انصاف کو دیکھیں تو اگرچہ انہوں نے بھی اپنی تنظیم سازی کی بد دلی سے کوشش کی لیکن2011 کے لاہور کے شو سے لیکر 2018 کے انتخابات تک عمران خان نے اپنے ورکرز کو سیاسی طور پر زندہ رکھا ہے۔ کبھی دھرنے کے نام پر اور کبھی کرپشن کے خلاف تحریک کی صورت میں ۔ بحر حال تحریک انصاف کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد جماعت کی موثر تنظیم سازی کر پاتے ہیں کہ نہیں۔ اگر ساری توجہ حکومت بنانے اور چلانے میں لگا دیں گے تو پانچ سال بعد وہ بھی ایک ایسے سیاسی صحرا میں کھڑے ہونگے جہاں دور دور تک ورکر دکھائی نہیں دے گا۔تحریک انصاف کو جتنی توجہ حکومت پر دینے کی ضرورت ہے اتنی ہی تحریک انصاف کو ایک منظم سیاسی جماعت بنانے کی ہے۔ اسی طرح سے پیپلز پارٹی، جس نے بلا شبہ بلاول بھٹو کی قیادت میں موجودہ انتخابات میں بہت بہتر کارکردگی دکھائی ہے، تنظیم سازی کی طرف بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مسلم لیگ(ن) کو بھی اپنے پرانے لچھن چھوڑ کر اس بات کا ادراک کرنا چاہیئے کہ مضبوط سیاسی جماعتیں متحرک اور مخلص ورکرز کے بغیر کچھ نہیں ہوتیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر عوامی مینڈیٹ کے دعویدار اس بات کو جتنی جلدی سمجھ جائیں کہ یہ دور اب لد گیا ہے ۔ عوامی احتساب سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انکو راستہ دو تا کہ وہ بھی آپ کے برابر کھڑے ہو سکیں۔اب کچھ بات آل پارٹیز کانفرنس کی جس میں سب ہارے ہوئے لوگوں نے جمع ہو کر اعلان کیا ہے کہ وہ اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے اور حلف نہیں اٹھائیں گے۔ اس میں پیش پیش مولانا فضل الرحمن ہیں۔ انہیں کم از کم اپنی بلوچستان کی قیادت سے پوچھ لینا چاہیئے تھا۔ کیونکہ میری اطلاع کے مطابق انکے منتخب ارکان بلوچستان اسمبلی میں جا کر نہ صرف حلف اٹھائیں گے بلکہ حکومت کا حصہ بھی ہونگے۔کہیں وہ بھی میاں نواز شریف کی طرح بڑھکیں لگانے کے بعد کسی سودے بازی کے چکر میں تو نہیں۔اطلاع ہے کہ جو پہلے کہہ رہے تھے کہ بیانیہ بک رہا ہے، موجودہ انتخابات کے بعد جب واضح ہو گیا کہ بیانیہ نہ صرف بک نہیں رہا تھا بلکہ الٹا گلے پڑ چکا ہے۔اب اس کو بیچنے کے لئے سودے بازی کی کوشش کر رہے ہیں۔آل پارٹیز کانفرنس کی آڑ میں کوئی رعایت لینے کی اگر کوئی چال چلی جا رہی ہے تو یہ بری طرح ناکام ہو گی کیونکہ میاں شہباز شریف بھی شاید اس کا حصہ نہ بنیں۔ پیپلز پارٹی تو کہہ ہی چکی ہے کہ وہ انتخابات کو مسترد ضرور کرتے ہیں لیکن پارلیمانی فورم سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے۔بلکہ بلاول بھٹو نے حلف نہ اٹھانے والوں کو بھی ساتھ ملانے کی بات کی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا مضبوط ہونا ہی جمہوریت کے فروغ کا ضامن ہے۔اسی سے سیاست اور سیاستدانوں کی اداروں پر بالادستی بحال ہو گی بشرطیکہ وہ جمہوری عادات اپنا لیں۔