18 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ "پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد کو ایسی قانون سازی سے گریز کرنا چاہیے جس سے انکے اپنے مفادات وابستہ ہوں "۔نہ جانے انہوں نے یہ بات کس تناظر میں کہی، لیکن ان کی اس بات نے عوام کے دکھ درد کی عکاسی کی ہے۔ پھر بھی یہ ایک ادھورا سچ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ قوانین جو سماج میں اقتصادی، سیاسی اور مساوی حقوق کے ضامن ہیں ، انکی ڈھٹائی سے خلاف ورزی اور انہیں اکثر طاقتور کے ہاتھوں پامال کیاجاتا ہے۔ مثلاً عورت مر د ، ملازم مالک ،کسان جاگیردار اور سویلین وردی والے کے سامنے بے بس ہیں۔ اس کے علاوہ آئین کے کچھ ایسے آرٹیکلزبھی ہیں جن پر سرے سے عمل ہی نہیں ہوا، اور ایسے قوانین بھی ہیں جو صریحاً مضحکہ خیز ہیں۔ملک میں جاری حالیہ سیاسی بحران ایسی ہی مضحکہ خیزی کا شاخسانہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 223 اس کی بڑی مثال ہے۔ اس کے تحت کوئی فرد قومی اسمبلی کے تمام حلقوں اور اپنے صوبے کی تمام صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے بیک وقت الیکشن لڑنے کا اہل ہے اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 61(2) کے تحت اس امیدوار کو ہر سیٹ کے لیے نامزدگی کی فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔25 ستمبرکو ہونے والے نو ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروا کے عمران خان نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر آرٹیکل 223 کی مضحکہ خیزی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ عمران خان کے مداحوں کا کہنا کہ ان کے لیڈرکیلئے اپنی مقبولیت پر مہر ثبت کرنے کا بہترین موقع ہے جبکہ مخالفین اسے احمقانہ حرکت قرارد ے رہے ہیں۔ لیکن اس میں مثبت پہلو یہ ہے کہ چلیں اس قانون کی مضحکہ خیزی پر کچھ بحث کا آغاز تو ہوا۔ میرے نزدیک اس قانون کو منسوخ کرنے کا موقع پیدا ہوا ہے۔ آئیے اس قانون کی مالیاتی تباہی کا بھی جائزہ لیں۔2018کے عام انتخابات پر تقریباً 25ارب روپے خرچ ہوئے تھے،یعنی قومی اسمبلی کے ہر حلقہ پر اوسطاً تین کروڑ روپے۔ دوسرے لفظوں میں 2018اور 2013کے 80 ضمنی انتخابات کے انعقاد پر بلاوجہ240کروڑ روپے خرچ کرنا پڑ گئے۔ سیاسی طور پر بھی یہ طرز عمل ہماری جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ عوامی سطح پر یہ عمل امیدواروں اور عوام کے مابین بد اعتمادی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اب ذرا اس مفروضہ پر غور کیجئے کہ اگر کوئی امیدوار بیک وقت 133 یعنی قومی اسمبلی کی پچاس فیصد نشستوں سے الیکشن لڑتا ہے او ر دس مزید سیاسی لیڈر ، دس دس نشستوں سے انتخابات لڑتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں ہوتا۔ فرض کریں کہ ہر سیاسی لیڈر 50فیصدنشستوں سے جیت جاتا ہے۔اب قانون کے تحت، ایک امیدوار صرف ایک نشست رکھ سکتا ہے، اس لیے جیتنے والوں کو ایک کے علاوہ تمام نشستوں سے استعفیٰ دینا ہوگا۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں ٹرن آؤٹ کا حساب لگانے کے لیے دو مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک خواتین کے لیے اور دوسرا عمومی ٹرن آؤٹ جاننے کے لیے۔عمومی ٹرن آؤٹ کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کو رجسٹرڈ ووٹوں کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف خواتین کا ٹرن آؤٹ جاننے کے لیے خواتین کے ووٹوں کی تعداد کو رجسٹرڈ ووٹوں کی بجائے ڈالے گئے ووٹوں کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایکٹ کے سیکشن 9(1) کے تحت اگر کسی حلقے میں خواتین کا ٹرن آؤٹ ڈالے گئے ووٹوں کے 10فیصد سے کم ہے توالیکشن کمیشن اس حلقے کے نتائج کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ یہ سیکشن نہ صرف صنفی تعصب بلکہ خواتین کے ٹرن آوٹ کو جعلی طریقے سے بڑھانے کی مضحکہ خیزحرکت ہے۔ ایسا کونسا ملک ہے جہاں کا الیکشن کمیشن حلقوں کی حد بندی کرتے ہوئے اپنے ہی پیمانے کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرے۔ الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 20(3) الیکشن کمیشن کو صرف مخصو ص صورتحال میں آبادی کے 10فیصد سے زیادہ یا کم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔عام انتخابات 2018 کے لیے تقریباً آٹھ حلقوں میں 11 لاکھ سے زیادہ آبادی تھی جو کہ 10فیصدحد سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے حلقہ 35 بنوں کی آبادی 12 لاکھ تھی جبکہ اسکے ساتھ والے قومی اسمبلی کے حلقہ 37 ٹانک کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اسی طرح ضلع کی آبادی اور رجسٹرڈ ووٹرز کے تناسب میں انتہائی زیادہ فرق موجود تھا۔ عام انتخابات 2018میں تقریباً 50 حلقوں کی آبادی میں ووٹرز کا تناسب 60فیصد اور 90 فیصد کے درمیان تھا۔ مثال کے طور پر خطہ پوٹھوہار کی آبادی میں ووٹرز کا تناسب 80 فیصد تھا جب کہ کوئٹہ، تھرپارکر اور کراچی کے کچھ حلقوں میںیہ شرح 30 فیصد سے بھی کم تھی۔ مجموعی طور پر دو درجن سے زائد حلقوں کی آبادی میں ووٹرز کا حصہ 20فیصد سے 40فیصد تک کم تھا۔اوپر بیان کیا گیا اتنا واضح فرق ووٹ کی مساوات کے بنیادی اصول کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔شرم کی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے ان انتخابی قوانین کی مضحکہ خیزیوں کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ انتخابی قوانین میں نقائص کی کوئی حد نہیں ۔ جیسے کہ ہمارے الیکشن ایکٹ میں کم از کم ٹرن آؤٹ کا تعین نہیں کیا گیا، اس لیے امیدوار رجسٹرڈ ووٹوں کا محض دو یا تین فیصد حاصل کر کے بھی پارلیمنٹ کا ممبر بن جاتا ہے اور سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف 18فیصد حاصل کر کے حکومت بنا لیتی ہیں۔ کیا تعجب کی بات نہیں کہ آج تک کسی بھی حکومت کو کل آبادی کے 8فیصد سے زیادہ کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ایک ایسی پارلیمنٹ جس کے 20فیصد اراکین پارلیمنٹ کی جیت کا مارجن مسترد ووٹوں سے کم ہو اور جس ملک کے انتخابات میں 60فیصد ڈالے گئے ووٹ ضائع ہو جاتے ہوں، اسے جمہوری کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟ ایک او ر مضحکہ خیزی ملاحظہ کریں۔ اپریل کے اوائل میں پی ٹی آئی کے 130 سے زائدارکان قومی اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پانچ ماہ بعد اب تک صرف 11 استعفے قبول کیے گئے ہیں۔ سپیکر کس قانون کے تحت تاخیر کر رہے ہیں اور کس قانون کے تحت انہوں نے 11 ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کیے اور باقی کے نہیں؟ سپیکر کا طرز عمل آئین کے آرٹیکل 64 کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ پروفیسر ایڈم بونیکا اور پروفیسر مائیکل میک فال کے مطابق "سیاسی ماہرین کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ جب زیادہ لوگ ووٹ دیتے ہیں تو جمہوریت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔" پاکستان دنیا میں سب سے کم ٹرن آؤٹ رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔درج بالا بحث سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ایسے تمام انتخابی قوانین جو محترم چیف جسٹس صاحب کی نظرمیں اشرافیہ کے مفادات کو تقویت دینے کیلئے بنائے گئے ہیں، کی منسوخی وقت آچکا ہے۔