جس وقت میڈیا پر صرف کرتارپور راہداری کے مناظر چھائے ہوئے تھے اور کیمرے گھنی داڑھیوں اور رنگین پگڑیوں والے ان خوش قسمت سکھوں کے چہروں کو محفوظ کر رہے تھے جو اس تاریخی موقعے پر بہت مسرور نظر آ رہے تھے؛ اس وقت میرے ہونٹوں پر نہ جانے کیوں فیض صاحب کے یہ اشعار آ رہے تھے: بہار آئی تو کھل گئے ہیں نئے سرے سے حساب سارے اور میں سوچنے لگا کہ تاریخ کتنی سفاک ہے۔ ستر برسوں سے زیادہ کا عرصہ ان سکھوں کی عقیدت نے آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے گزارے مگر ان کے ملک نے ان کے اس حق کے لیے کچھ نہیں کیا کہ وہ اپنے گرو کے گردوارے پر آئیں اور عقیدت کے پھول چڑھائیں۔ 71برسوں تک ان کی آنکھوں میں انتظار بستا رہا ؛ ایک خواب بستا رہا، مگر ان کے اس خواب کی حقیقت 71برسوں کے بعد ان کو حاصل ہوئی ہے۔ ان کو وہ حق اس ملک کی طرف سے نہیں ملا جس ملک کی زرعی معیشت میں ان کا کردار ریڑھ کی ہڈی جیسا ہے۔ وہ لوگ جس ملک کو ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اس ملک سے اتنا بھی نہیں ہوسکا کہ وہ ان کے مذہبی جذبات کی قدر کرتے ہوئے انہیں اپنے گرو کی سمادھی پر آسان رسائی فراہم کرے۔ بھارت کے سکھوں کو تاریخی انصاف پاکستان کی طرف سے ملا ہے اور وہ اعزاز ایک عام سے سکھ کے حصے میں آیا جس کا نام نوجوت سنگھ سدھو ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو مشہور بہت ہے مگر وہ اتنا اچھا کامیڈین نہیں ہے ۔ وہ جب عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں آیا تب پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے وہ سکھوں کے مخصوص انداز میں گلے ملے اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کرتارپور کی سرحد کھولنے کا وعدہ کیا ۔ یہ اعلان سن کر نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے سکھوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ ہم مسلمان اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ سکھوں کے لیے وہ لمحہ کیا ہوتا ہے جب ان کی نظر کرتارپور کے اس گردوارے پر پڑتی ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک صاحب کی سمادھی ہے۔ بھارت کے سکھ اس بات کی تکلیف بیان نہیں کرسکتے ہیں جب وہ سرحد کے اس پار سے اپنے گرو کی سمادھی کو دیکھ تو سکتے ہیں مگر چھو نہیں سکتے۔ یہ درد ناقابل بیان ہے۔ پاکستان کے بہت سارے لوگوں کو اس بات کا علم مشکل سے ہوگا کہ بھارتی پنجاب میں سرحد کے اس پار سے جہاں کرتارپور کا دربار صاف دکھائی دیتا ہے اس کو سکھ قوم کے لوگ ’’درشن پوائنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ وہ سب وہاں آتے رہے ہیں اور دوربین سے اپنے گرو کی وہ سمادھی دیکھ پاتے ہیں جس کو اب بغیر ویزے چھونے اور اس کی دیواروں سے لپٹنے کا حق انہیں میسر ہوگیا ہے۔یہ بہت کامیابی سکھوں کو اس شخص کی معرفت ملی ہے جو ایک عام سا کامیڈین ہے۔ کاش! سکھوں کو یہ حق اس شخص کی معرفت ملتا جس کا نام خشونت سنگھ تھا۔ وہ خشونت سنگھ جو بہت کامیاب صحافی اور زبردست ادیب تھا۔ خشونت سنگھ کی صحافتی کامیابیوں کا تذکرہ ہم کسی اور کالم میں کریں گے مگر ان کے وہ خاکے اور خاص طور پر وہ ناول جو دل میں اتر جاتے ہیں ایسی من موہنی تحریروں کے مالک کو اگر یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ اپنے ہم مذہب اور ہم زباں لوگوں کو کرتاپور کی وہ سرحد کھلوانے کی خوشخبری دیتا تو اس کی کس قدر خوشی ہوتی۔ سیاست کی قید سے آزاد ہونے کے بعد اپنے سیاسی تجربات اور تکالیف کا بیان کرتے ہوئے اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’بھارت کے اکثر اسمبلی ممبران گیس کے مریض ہیں۔ ان کے درمیاں بیٹھنے کی تکلیف میرے لیے ناقابل بیان ہے‘‘ وہ خشونت سنگھ ہی تھے جنہوں نے ادب کو تفریح کی عظیم کاوش قرار دیا تھا۔ یہ خشونت سنگھ ہی تھے جس کے قلم نے کبھی کسی کو معاف نہیں کیا ۔ اگر اس خشونت سنگھ کو یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ اپنی قوم کو یہ خوش خبری دیتا کہ اب تم گرو کے گردوارے کو دور سے نہیں مگر قریب سے جاکر دیکھ سکتے ہیں اور تم وہاں پیدل جا سکتے ہیں تو ان کے دل میں کس قدر مسرت کا احساس ابھر آتا۔ اس کام پر بھارتی حکومت کو پاکستان کے پیر چھونے چاہئیں، کیوں کہ پاکستان کے آرمی چیف نے ان کے کروڑوں لوگوں کو وہ سہولت دی ہے جس کا وہ برسوں سے سپنا دیکھا کرتے تھے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کی حکومت کو اس بات کی خوشی نہیں ہوئی ۔ وہ الٹا اس بات پر ناخوش ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت کو اس عمل پر خوشی کیوں نہیں ہوئی؟ کیوں کہ اس عمل سے ہندو مذہب کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بھارت کو کرتارپور راہداری میں بھی خالصتان کی تحریک ابھرنے کے خدشات نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے بھارتی میڈیا کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے والی رسم کے موقعے پر بار بار وہ تصویر دکھا تا رہاجس میں پاکستان کے آرمی چیف خالصتان کی تحریک سے وابستہ شخص گوپال چاولہ سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میزبان ملک تھا اور کرتارپور کی راہداری کھولنے کا فیصلہ فوجی قیادت کا تھا، اس لیے پاک فوج کے قائد پر یہ فرض تھا کہ وہ آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہیں۔ بھارت کو یہ بات بہت بری لگی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں : ’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئیے کہ وہ کس قسم کی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھ قوم کو اپنے سے مزید دور کرنے کی حماقت بھری حرکت کر رہی ہے۔ بھارت کا سیکولر نقاب اترتا جا رہا ہے۔ بھارت برے طریقے سے بے نقاب ہو رہا ہے۔ کیا یہ ضروری تھا کہ اس دن بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج پریس کانفرنس کے ذریعے یہ اعلان کرتی کہ کرتارپور کی سرحد کھولنے سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا کوئی تعلق نہیں۔ ہر وقت کی ایک اپنی مخصوص اخلاقی شائستگی ہوتی ہے۔ جس وقت بھارت سے تعلق رکھنے والے سکھ پاکستان میں خوشیاں منا رہے تھے۔ جس وقت پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت دونوں ممالک کے درمیاں امن کا نیا سفر شروع کرنے کی باتیں کر رہے تھے؛ کیا ضروری تھا کہ اس وقت اس قسم کی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا جائے اور کہا جائے کہ بھارت نہ تو پاکستان سے مذکرات کرے گا اور نہ سارک کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ بھارت کے اس رویے کو بھارت میں بسنے والے سکھوں نے کس طرح دیکھا ہوگا؟ ان کو اس موقعے پر شدت کے ساتھ محسوس ہوا ہوگا کہ بھارت ان کی خوشی میں خوش نہیں ہے۔ اگر کسی ہندو مذہبی مقام تک کوئی بس سروس چلائی جاتی ہے تو بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی بذات خود تشریف لے جاتے ہیں مگر کرتارپور سرحد کھولنے کے موقعے پر بھارت کی طرف سے وزیر خارجہ بھی نہیں آئی۔ مگر سکھ اس دن خوش تھے کہ انہیں اس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہ تھی کہ بھارت کے ہندو حکمران کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ کافی تھا کہ ان کا 71برسوںکا انتظار اپنے انجام کو پہنچا اور ان کو اپنے گرو کے گردوارے پر عقیدت کے پھول چڑھانے کا حق حاصل ہوا۔