پاکستان ہی کیا، ملت اسلامیہ کی فیصلہ کن تاریخ اپنے اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ بین الاقوامی روایتی، غیر روایتی، مستقل اور عارضی سازش کار پوری طرح سے آمادہ بہ شر ہیں۔ مغرب، مشرق کا کردار ہر اہل نظر پر واضح ہے۔ ملک کے اندر بہت سے تبصرہ نگار اپنے مخصوص نقطہ نظر اور مفاداتی اہداف کے تحت ملکی حالات کی وہ تصویر پیش کرتے ہیںجو بہت ہی شکستہ ہے، خستہ ہے اور بھیانک ہے۔ ہر شخص کو سوچنے اور بیان کرنے کا جو حق انسانی حقوق کا چارٹر عطا کرتا ہے، ہر تبصرہ نگار کو اس کے اندر ہی محدود رہنا مناسب ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کی بساط پر بچھے ہوئے مہرے اور مہروں کا کھیل کھیلنے والے ہاتھ اپنے اپنے کردار میں مصروف ہیں۔ تبصرے تو بہت ہیں لیکن حقائق کو شفاف نظروں سے دیکھنے کے لیے پس منظر پر غور کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ آج کل ایک نعرہ جو نہایت ہی مرتب ذہن کی پیداوار ہے، لگایا جارہا ہے کہ 70 سال کی جنگ اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ یہ جنگ کیا ہے؟ اور اس جنگ کے فریقین کون کون ہیں، اور اس جنگ کا ہدف کیا ہے؟ قارئین! 14 اگست 1947ء کو پاکستان نقشہ دنیا پر ابھرا، پاکستان کے اصلی اور ازلی دشمنوں نے کبھی بھی اسے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کی بنیاد بہت ہی واضح تھی، اب بھی ہے اور قیامت تک بنیاد اسی مقدس نظریے پر قائم رہے گی۔ یہ نظریہ مقدسہ انسانیت کی دوامی آزادی اور کمزور طبقات کی حقوق رسائی کا نظریہ ہے اور یہی نظریہ انسانیت کی امامت کا کامل ترین نظریہ ہے۔ یہ نظریہ برصغیر کے محکوم مسلمانوں کی آواز تھا اور مردان حر قائدین اس نظریے کے علم کو اٹھاتے ہوئے تھے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ(ﷺ) کا نعرہ زیردست اور مقہور و مجبور مسلمانوں کے دلوں کی آواز تھااور ہے اور غلبہ دین کے لیے یہ نعرہ مستقبل کی امید بھی رہے گا۔ ہندو، انگریز نے ان کے ٹوڈی بھوک کے مارے لالچی، شکم پرور نام نہاد آزادی پرستوں نے برصغیر کی سیاست میں ایک عجب رنگ ماحول پیدا کر رکھا تھا جس میں ظالم و مظلوم کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ قیام پاکستان کے جہاد میں مسلمہ مسلم قوت سے ٹکرانے والے انگریز، ہندو اور ان کے بہی خواہ وہ منافقین اسلام بھی تھے جو کسی بھی لمحے لفظ پاکستان کو سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ بہرحال رحمت خداوندی کا اعجاز پاکستان بن گیا لیکن دشمن نے اپنے مورچوں میں خاموشی اختیار تو کی مگر بدنیتی کو مضبوط کرنے کے لیے دوسری غیر جنگی چالیں چلنا شروع کردی تھیں۔ 70 سالہ جنگ میں شیخ مجیب جیسے ہندو ایجنٹ اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دائمی مخالفین ہر رنگ میں پاکستان کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوششوں میںمصروف رہے۔ اس جنگ کے فریقین وہی پرانے ہیں، بھارت اپنے بین الاقوامی نیتائوں کی اشیر آباد کے ساتھ پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذوں پر جنگ میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ پاکستان کی بنیاد نظریہ دین اور برتری اہل اسلام ہے، اس لیے وہ پاکستان میں اپنے نمائندوں کی مدد سے بھرپور تخریب کاری کروا رہا ہے اور دیگر مغربی قوتیں پاکستان میں اسلامی اعتقادی شعائر کی توہین کا سلسلہ اپنی نگرانی میں سرانجام دلوا رہی ہیں۔ اس مختصر کالم میں ان چیرہ دستیوں اور ظلم کی مسلسل خاموش کہانیوں کا ذکر ناممکن ہے۔ جو پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے لیے روبہ عمل ہیں اور ان کرداروں کے بدلے میں بھی کچھ تفصیل بیان کرنا ناممکن ہے کہ جو شعور اور بے شعوری کے ساتھ وطن دشمنی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ملک کی تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں میں بظاہر اسباب کچھ بھی ہوں لیکن حقیقت کی وہ خاموش وجوہات ان تبدیلیوں کے پس منظر میں موجود رہتی ہیں۔ ہر خواص اور عوام کو ان خاموش وجوہات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کراپنی خاندان سیاسی وراثت کو مضبوط کرنے والے خاندان ان تلخ حقائق سے ہرگز چشم پوشی نہ کریں۔ پاکستان میں عوام کی دینی اور معاشی زندگی سے کھیلنے والے ارباب بست و کشاد اور صاحبان اقتدار نے جب بھی نظریہ پاکستان اور فلاحی ریاست کے مقاصد کو پس پشت ڈالا تو فطرت کے قانون نے ان کے لیے فطری انتقام کے اسباب پیدا کردیئے اور ان میں سے ہر ایک گمنامی و ذلت کی خاک چاٹ کر اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔ یہ ایک مسلسل تاریخ ہے جو مستقبل کا تجزیہ نگار حقائق کے ساتھ تحریر کرے گا۔ مسلم لیگ ن آج کل اسی فطری انتقام کی زد میں ہے۔ ان کے ذمہ دار لوگوں نے اپنے خاندانی اقتدار کو دوام دینے کے لیے پاکستان اور پاکستان کے نظریے کو بازیچہ اطفال بنا رکھا تھا۔ مذہبی لحاظ سے ان لوگوں نے مذہبی افتراق کو وسیع کرنے کے لیے بہت ہی خاموش کردار ادا کیا۔ منکرین ناموس رسالت اور شاتمین رسالت کو اپنی خاموش پناہ گاہوں میں ان لوگوں نے راحت سامانی کا ماحول فراہم کیا۔ اپنی لبرل پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے منکرین ختم نبوت کو اپنے سیاسی تھنک ٹینک میں کلیدی حیثیت میں برقرار رکھا اور پھر سب سے بڑھ کر اپنے آخری ایام میں اسمبلی کو پوری طرح سے ہلانے کی کوشش کی اور ختم نبوتؐ کی قانونی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے ابتدائی اقدامات کے لیے قانون سازی کا سہارا لیا جس کا نتیجہ بالآخر ایک ملک گیر احتجاج کی صورت میں برآمد ہوا اور بہت سے مسلمان ریاستی تشدد کا شکار ہو کر جام شہادت نوش کر گئے۔ بالآخر ملک کے محب وطن اداروں کو مداخلت کرنا پڑی جس سے امن بحال ہوا۔ امن بحالی پر ن لیگ کے سابق سربراہ نے اپنی نجی مجالس ہی میں نہیں بلکہ برسرعام اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ لوگ آئین میں فراہم کردہ ان قانونی ضمانتوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے جن ضمانتوں میں ختم نبوتؐ کے آئینی تحفظ کی تفصیلات موجود ہیں۔ ن لیگ کے سابق سربراہ نے غازی ممتاز قادری شہید کے کیس کے سلسلے میں جو گھنائونا کردار ادا کیا وہ ان فرنگی اقدامات کو بھی مات کرگیا جو غازی علم الدین شہید کے مقدمے میں ہندو پرور انگریز حکمرانوں نے کئے تھے۔ خون تو پھر خون ہے اور جو ناموس رسالتؐ کے تحفظ میں کام آیا اس کا بلند درجہ عرش و فرش پر انمول رہا کرتا ہے اور دشمنان ناموس رسالت کے بہی خواہ بھی مجرموں کی فہرست میں دنیا وآخرت میں فطری انتقام کی زد میں ہوا کرتے ہیں۔ موروثی سیاست کو فروغ دینے والے کراچی و لاہور کے دونوں سیاست دان ہندوئوں کی دیوالی کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے مذہب و ثقافت کو بڑھاوا دینے کے لیے ایمان سوز بیان دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایک مرتبہ ن لیگی سابق وزیراعظم نے نجانے کس ترنگ میں ہندو مسلم سکھ عیسائی بھائی بھائی کا نعرہ لگایا تھا اور کہا تھا کہ ہماری ثقافت اور بھارت کی ثقافت ایک ہے بس درمیان میں ایک مصنوعی سرحدی لکیر ہے۔ اس بیان سے نجانے کتنے شہدائے تحریک پاکستان کی روح اذیت ناکی سے گزری ہوگی۔ اس مقدس لکیر کے قیام کے لیے لاکھوں معصوم جانوں نے نذرانہ شہادت پیش کیا تھا۔ لاکھوں مسلم خواتین کی عصمتوں نے اس مقدس لکیر کے لیے قربانی دی تھی۔ پیٹ بھرے کی الاپ سے خون شہداء بارگاہ خداوندی میں شکایت کناں ہوا کرتا ہے اور پھر فطری انتقام کے سنگ ریزے برستے ہیں۔ پاکستان سے بے وفائی کرنے والے کبھی بھی سکھ کا سانس نہ لے سکے۔ زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی۔ ان کی نسل پر عزت کے دروازے بند ہوئے اور ان کی اولاد بھی اپنے بڑوں کی چھوڑی ہوئی دنیا سے فیض یاب نہ ہو سکی۔ ذرا موازنہ کیجئے، ان کی دشمن پروری اور دوست دشمنی کا کہ اجمل قصاب کے نام سے ریاست پاکستان کو بدنام کروانے کا جو ڈرامہ رچایا گیا تھا ان کی منافقت نے اس ڈرامے کو سچ کا رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ کلبھوشن اپنے سیاہ کرتوتوں سمیت گرفتار ہوا۔، شور مچا، لیکن چونکہ ڈوریاں کسی اور جانب سے ہل رہی تھیں، اس لیے ن لیگی حکومت کی زبان اور ہاتھ بالکل ہی معطل ہو کر رہ گئے اور ایک پراسرار خاموشی نے وطن دشمنی کے اس کردار کو قرطاس ،وقت اور لوح ذہن سے محو کر کے رکھ دیا۔ پھر تحقیقاتی اداروں نے یہ خبریں بھی دیں کہ ن لیگی کے خاندان سربراہوں کے کارخانوں میں بھارتی ماہرین کی ایک پوری کھیپ کام کرتی ہے اور سخت اندیشہ ہے کہ ایسے دشمن ملک کے باشندے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی بھی حرکت کرسکتے ہیں لیکن ن لیگ کے حکمران اور وظیفہ خور سیاستدان اپنے لبوں کو سی کر بیٹھ گئے۔ دین سے بے وفائی اور وطن کے مفادات سے بے اعتنائی، عوام کی ضروریات سے بے خبری بلکہ عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کی عادات ایسے برے اور قابل نفرت رویے ہیں جو فطرت کو مائل بہ انتقام کرتے ہیں اوربالآخر تخت الٹ جاتے ہیں۔ جاہ و حشم ذلت کی دہلیز پر سر جھکاتے ہیں۔ اقتدار محض ایک خواب بن جاتا ہے۔ انیس جاں دوست وعدہ معاف گواہ کہلاتے ہیں اور پھر نئی دنیا، نئی کائنات، بالآخر جفا کا راس دنیا سے نکل کر قبر کی اندھیری کوٹھڑی میں بے بسی کی گود میں بلکتے رہ جاتے ہیں۔ نہ وہاں تیرے جانثار بے شمار۔ قدم بڑھائو کے نعرے ہوتے ہیں اور نہ عوامی خون سے بننے والی آسائشیں ہوتی ہیں، غم کے اندھیرے اور سزائوں کی دھکتی آگ کے الائو گھیرا دیئے رکھتے ہیں۔ الامان والحفیظ۔