روزنامہ 92 نیوز کی سینئر کالم نگار انجم نیاز وفات پا گئیں۔ وہ گزشتہ چند ماہ سے کینسر سے لڑ رہی تھیں۔ اس لیے کالموں میں وقفہ آ جاتا۔ کبھی ہماری طرف سے اصرار ہوتا تو برادرم اجمل شاہ دین سات آٹھ سو الفاظ کی تحریر ترجمہ کروا کر میل کردیتے۔ ہم شکوہ کرتے کہ کم از کم گیارہ سو الفاظ تو ہوں۔ انجم نیاز امریکہ میں مقیم تھیں مگر ان کی تحریروں میں پاکستان کی تصویریں اس قدر بھری ہوئی ہوتیں کہ گمان ہوتا وہ اسلام آباد میں ہیں۔ وہ پاکستان کے بڑے بڑے باخبر صحافیوں سے زیادہ باخبر تھیں۔ انجم نیاز کے والد سیدفدا حسن مغربی پاکستان کے چیف سیکرٹری رہے۔ سیدفدا حسن کو کرکٹ سے محبت تھی۔ خواجہ ناظم الدین نے 1954ء میں اوول گرائونڈ میں کاردار کی قیادت میں انگلینڈ کو شکست دینے والی ٹیم کا مینجر فدا حسن کو بنایا۔ انجم نیاز کے کالموں میں کرکٹ کی اصطلاحات اور اپنے والد سے سنے تاریخ ساز واقعات کا ذکر ہوتا۔ انجم نیاز نے ایم اے انگریزی اور جرنلزم کر رکھے تھے۔ 1984ء میں جب انہوں نے صحافت کا شعبہ اپنایا تو خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اگر کسی ادارے میں خواتین صحافی موجود تھیں تو ان کا کردار خواتین کی سرگرمیاں رپورٹ کرنے اور بچوں کے صفحات ترتیب دینا تھے۔ انجم نیاز نے زیادہ سنجیدہ کام پر توجہ دی۔ انہوں نے ملک کے بڑے انگریزی میڈیا گروپ کے ساتھ کام کیا۔ 1993ء میں انجم نیاز اسلام آباد منتقل ہو گئیں۔ یہاں انہوں نے دفتر خارجہ کی سرگرمیاں رپورٹ کرنا شروع کیں۔ انیس سو نوے کے عشرے میں انجم نیاز کی فیلڈ رپورٹنگ نے انہیں بے نظیر بھٹو‘ میاں نوازشریف اور صدر فاروق لغاری کے قریب رہنے اور اہم تاریخی واقعات کو خود مشاہدہ کرنے کا موقع دیا۔ وہ بطور خاتون بے نظیر بھٹو کو پسند کرتی تھیں مگر پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے منفی پہلو سامنے لانے سے گریز نہ کرتیں۔ اسلام آباد میں سفارتی حلقوں میں ان کے رابطے بہت کارآمد رہے۔ ان کا خاندانی پس منظر‘ ان کی تعلیم اور صحافیانہ جستجو نے انہیں دارالحکومت میں بیٹھے فیصلہ سازوں تک رسائی میں سہولت دی۔ انجم نیاز کی اٹھان میگزین‘ فارن افیئر رپورٹر‘ کرکٹ لور اور اعلیٰ سیاسی رابطے رکھنے والی صحافی کے طور پر ہوئی۔ انگریزی ادب سے وہ حوالے اس طرح اپنی تحریر کا حصہ بناتیں گویا یہ حوالہ پاکستان کے لیے ہی تخلیق ہوا تھا۔ 1996ء میں انجم نیاز امریکہ منتقل ہو گئیں۔ اب کسے نہیں معلوم کہ اس زمانے میں پاک امریکہ تعلقات کے ٹو کی چوٹیوں پر تھے۔ اس زمانے میں اردو اخبارات میں ایسی خواتین کالم لکھ رہی تھیں جن کا حوالہ ادبی تھا۔ ان کے موضوعات بھی ادب یا اخلاقیات کا احاطہ کرتے۔ ویسے بہت سے نامورمرد کالم نگار آج بھی ایسا ہی لکھ رہے ہیں۔ عربی‘ فارسی اشعار اور تراکیب کتابوں سے نقل کر کے ایک بھاشن تیار کرتے ہیں اور اپنے تئیں اسے شاہکار جانتے ہیں۔ انجم نیاز‘ نسیم زہرہ‘ ماریانہ بابر‘ شیری رحمان اور شیریں مزاری ایک مختلف مزاج کی خواتین کے طور پر سامنے آئیں۔ ملیحہ لودھی کی تحریر نے کبھی متاثر نہ کیا البتہ وہ اپنی صلاحیتیں بطور ایڈیٹر منوا چکی ہیں۔ جگنو محسن کی تحریر میں وہ کاٹ نہیں جو انجم نیاز کو ملی اگرچہ سفارتی و سیاسی حلقوں میں تعلقات کے حوالے سے وہ بھی اسی قدوقامت کی مالک ہیں۔ پھر شاید جگنو محسن کو بہت سے انتظامی امور دیکھنا ہوتے ہیں جس سے ان کی کئی خوبیاں سامنے نہ آ سکیں۔ انجم نیاز کے انگریزی میں لکھے کالم پندرہ سال قبل ایک اردو اخبار میں ترجمہ کر کے شائع ہونے لگے۔ اردو اخبارات کے قاری کے لیے ان کالموں میں ایک نیا ذائقہ تھا۔ یوں ان کے قارئین کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ اپریل 2017ء میں روزنامہ 92 نیوز شائع ہوا۔ گروپ ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف چاہتے تھے کہ ادارتی صفحات پر ایسے کالم نگار آئیں جو قومی اور بین الاقوامی امور کو سمجھتے ہوں‘ جن کی تحریر میں ان کا تجربہ بولتا ہو‘ جن کی قابل احترام شناخت ہو اور جو لکھنا جانتے ہوں۔ تیس کے قریب مرد کالم نگاروں کے ساتھ ارشاد احمد عارف نے انجم نیاز‘ سعدیہ قریشی، قدسیہ ممتاز اور بشریٰ رحمان کے نام دیئے۔ انجم نیاز ہفتہ میں دو کالم لکھا کرتیں۔ تحریک انصاف کے جلسے میں خواتین سے بدسلوکی کا واقعہ سامنے آیا تو ن لیگی قیادت نے خواتین کو پی ٹی آئی کے جلسوں میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ن لیگی ترجمانوں نے زہریلے بیانات جاری کئے۔ انجم نیاز نے اس موقع پر ایک بھرپور کالم لکھا۔ انہوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو نے جب لاہور میں جلسہ کیا تو انجم نیاز اور چند غیر ملکی خواتین صحافیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ اس جلسے میں انہیں خود بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ معلوم ہوا کہ لیگی قیادت نے کچھ لوگوں کو جلسہ میں شریک خواتین کو پریشان کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ انجم نیاز کے اس کالم کو سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں شیئر کیا گیا۔ ان کے کالم پر میاں نوازشریف اور شہبازشریف سمیت کسی نے تردید نہ کی حالانکہ اس وقت مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ انجم نیاز کے کالم پڑھنے والے لوگ انہیں ایک ایسی خاتون سمجھتے جس کے علم و فضل اور جستجو پر مغرب کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ کوئی چھ سات ماہ پہلے انہوں نے اپنے دورہ فلسطین و اسرائیل کا احوال کالموں میں بیان کیا۔ ان کالموں میں ایک طرف وہ صحافی اور فلسطینیوں کے دکھوں پر رنجیدہ ہمدرد خاتون نظر آئیں اور دوسری طرف مسجد اقصیٰ‘ دیوار گریہ‘ بیت المقدس کے قدیم حصوں اور گلیوں میں چلتے پھرتے انہیں اس روحانی تجربے کا حصہ بنتے محسوس کیا جاسکتا ہے جو ایک پختہ عقیدہ مسلمان کے نصیب میں آتا ہے۔ 1948ء سے 2018ء تک کے جیون میں انجم نیاز نے بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی وفات سے ہم ایک ایسی شخصیت سے محروم ہو گئے جو مصلحت کے دور میں سچی بات کہنے کی جرأت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔