}آج کل اخبارات میں سنجیدہ کالموں کا " ہڑ" آیا ہُوا ہے۔ جنھیں پڑھ کر قارئین رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ میری اور برادرم ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی کوشش ہے کہ قارئین کی خدمت میں سویٹ ڈش کے طور پر طنزیہ اور مزاحیہ تحریر یں پیش کی جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سنجیدگی کے بوجھ تلے دب کر قارئین مسکرانا ہی بُھول جائیں۔ تو یہ لیجئے ایک ہلکی پھلکی تحریر۔{ میرا دوست سلیم عسکری کسی زمانے میں افسانے لکھا کرتا تھا لیکن اب اُس کی افسانہ نگاری قصّہٗ پارینہ بن چکی ہے۔ البتہ اُس کی روز مرہ کی گفتگو میںاب بھی افسانوی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ سلیم عسکری بعض افسانہ نویسوں کی طرح، جزئیات کی تفصیل مزے لے لے کر بیان کرنے کا عادی ہے۔ پندرہ منٹ کا واقعہ بیان کرنے کے لیے اسے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ مثلا : "آگے سیڑھیاں تھیں۔ میں نے سوچااُوپر جانے کے لیے سیڑھیوں کو اِستعمال کرنا چاہیے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے دایاں پائوں آگے بڑھایا اِس کے بعد بایاں اور یوں قدم بڑھاتے ہوئے میں پہلی سیڑھی تک پہنچ کر ایک ایک کرکے میںسیڑھیاں چڑھنے لگا۔ تقریباً پچاس سیکنڈ کے بعد پہلی منزل پر پہنچ گیا۔ وہاں سے ایک راستہ دائیں کوجاتا تھا اور ایک بائیں کو۔ میں سوچنے لگا دائیں طرف مڑوں کہ بائیں طرف۔ اِتنے میں کیا دیکھتا ُہوں کہ نیلی پینٹ اَور پیلی شرٹ پہنے ایک پستہ قد‘ فربہ اَندام درمیانی عمر کا شخص چلا آ رہا ہے۔ اُس نے سیاہ شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ اُسے دیکھتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ اُس سے کمرہ نمبرچو بیس کے بارے میں دریافت کروں۔ـ" پچھلے د ِنوں اچانک میکلوڈ روڈ پر اُس سے ملاقات ہو گئی۔ ـ"چہرہ اُترا ُہوا ہے‘ بیمار رہے ہو کیا؟" میں نے ُپوچھا تو اُس کے چہرے پر بہار آ گئی: "یہاں سڑک پر کھڑے ہو کر کیا خاک بات ہو گی۔آئو سامنے ریستوران میں بیٹھتے ہیں۔" ـ"تمھارے ساتھ ریستوران میں بیٹھنے کا مطلب ہے ۔کم اَز کم تین گھنٹے جب کی آج میں عجلت میں ہوں۔ " میں نے کہا۔ "تم تو جب بھی ملتے ہوعجلت میں ہوتے ہو۔ چلو آئو ایک کپ چائے کا ہو جائے۔" وہ مجھے بازو سے کھینچتے ہوئے بولا۔ "چلو" میں نے بادل نخواستہ کہا۔ چائے کا آرڈر دینے اور سگریٹ سلگانے کے بعد کہنے لگا۔ "تم نے میری صحت کے بارے میں پوچھا تھا۔ ـ" "تو کیا نہیں پوچھنا چاہیے تھا؟" میں نے کہا۔ "یہ ایک لمبی داستان ہے۔" وہ آہ بھر کر بولا۔ "تمھاری ہر داستان لمبی ُہوا کرتی ہے لیکن آج میرے پاس وقت نہیں۔ میرا ہمسایہ گھر پر جاں بلب پڑا ہے اور میں اُس کے لیے دوا لینے آیا ہوں۔" "ایلوپیتھک یا ہو میو پیتھک؟" اس نے پوچھا۔ "ایلوپیتھک۔" میں نے جواب دیا۔ "ایلوپیتھک دوا دینے سے بہتر ہے تم اسے اُسے جاں بلب ہی رہنے دو۔ مجھے اِن دوائوں کا جو تجربہ ہُوا ہے اُس کی تفصیل سنو گے تو دنگ رہ جائو گے! "کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج میں صرف دنگ رہ جائوں اور تمھاری تفصیل کسی فارغ وقت میں سُن لوں۔" میں نے ایک قابلِ عمل تجویز پیش کی۔ "وہ تین نومبر سن چوراسی عیسوی کی ایک خوشگوار شام تھی۔" اس نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ "مو ِسم سرما کی آمد آمد تھی… بقو ل میر انیس ؎ سردی ہوا میں پر نہ زیادہ بہت نہ کم ـ "میرے تینوں جگر گوشے گھر کے صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔" ـ"میں اپنے بیٹوں کو بگو گوشے کہا کرتا ہوں۔ـ" میں نے اس کی بات کاٹی۔ "غیر سنجیدہ گفتگو مت کرو۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ تینوں بیٹے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ شاہد بیٹنگ کر رہا تھا۔ حامد گیند کروا رہا تھا۔ زاہد و کٹ کیپنگ کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ انھیں کرکٹ کھیلتے دیکھ کر میں ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا۔ ـ" "ماضی قریب یا ماضی بعید؟" "ماضی بعید ہی کہنا چاہیے اَب تو! مجھے پچیس سال پہلے کا ُ وہ زمانہ یاد آ گیا جب میں سکول جانے کے بجائے دوستوں کے ساتھ گرائونڈ میں پہنچ کر کرکٹ کھیلنے لگتا تھا۔" "پچیس سال پہلے ‘‘کے الفاظ سنتے ہی مجھے رگوں میںخون جمتا محسوس ہونے لگا۔ "دیکھوسلیم! اگر تم مجھے مختصراً بتا دو کہ تمھیں کیا بیماری تھی اَور کس ڈاکٹر یا حکیم کے علاج سے تم ٹھیک ہوئے تو گویا میری آئندہ نسلوں پر احسان کرو گے!" ـ"ٹھیک کہاں ہُوا ہوں۔ ہنوز روز ِ اوّل است والا معاملہ ہے۔ ہاںتومیں کہہ رہا تھا کہ بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کر میرے اَندر کا کرکٹر ایک انگڑائی لے کر جاگ اُٹھا۔ میں نے حامد سے کہا کہ تم فیلڈنگ کرو،میں گیند کرتا ہوں۔ گیند ہاتھ میں لے کر میں نے چند قدم کا سٹارٹ لیتے ہوئے گیند شاہد کی طرف پھینکی۔ اس نے ایک خو بصورت سٹروک لگایا۔ میں گیند پکڑنے کے لیے جھکا۔ اچانک کمر میں ایسا شدید دور اُٹھا کہ میں بے حال ہو کرزمین پر گِرا اور ماہی بے آپ کی طرح ہائے ہائے کرنے لگا۔" "ماہی بے آب ہائے ہائے تو نہیں کرتی۔" میں نے کہا۔ "اوہ ، آئی ایم سوری۔ … میرا مطلب ہے میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ مجھے اس گھڑی ز ِندگی اور موت کا فاصلہ تیزی سے سمٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے اس وسیع و عریض کائنات کی بے کراں پہنائیاں"..... ـ" میں ذرا باہرسے سگریٹ لے آئوں؟" میں نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا۔ "بیچ میں مت بولا کرو۔" وہ قدرے خفگی سے بولا۔ "بیچ میں کب بولتا ہوں…تمھارا بیچ توکبھی آتا ہی نہیں۔" میں نے کہا۔ "تمھیںسگریٹ چاہئیں ؟ بیرے سے منگوا لیتے ہیں۔" ـ"نہیںمیں خود لے آتا ہوں۔ پھر آ کر اِطمینان سے تمہاری لمبی داستان سنوں گا۔" یہ سُن کر میںاُٹھا۔ باہر نکلا تو ایک خالی ر ِکشادکھائی دیا۔ موقع غنیمت جان کر جھٹ ر ِکشے میں بیٹھ گیا۔ "کہاں چلو گے بابو جی؟ "رکشے والے نے پوچھا۔ "جہاں تمھارا جی چاہے لے چلولیکن خدا کے لیے یہاں سے جلدی نکلو۔" اَور پھر چند ہی منٹ میں ر کشے والا مجھے سلیم عسکری سے دُور بہت دُور لے گیا۔ واقعی اِس وسیع و عریض کائنات کی بیکراں پہنائیوں میں بے پناہ گنجائش ہے۔ ٭٭٭٭٭