میاں شہباز شریف کی قیادت میں سرکردہ ارکان پر مشتمل وفد سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن کی کیپٹن(ر) صفدر کے ساتھ ملاقات سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ شریف خاندان میں اختلاف؟ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مولانا سے ملاقات کرنے والے احسن اقبال‘ ایاز صادق‘ رانا تنویراور مریم اورنگزیب پر عدم اعتماد یا حسب سابق دوہری پالیسی؟ میاں شہباز شریف مسلم لیگ کے سربراہ ہیں‘ احسن اقبال سیکرٹری جنرل اور مریم اورنگزیب سیکرٹری اطلاعات مگر کیپٹن صفدر مولانا سے علیحدگی میں ملتے اور میاں نواز شریف کے علاوہ مریم نواز شریف کی طرف سے یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ مسلم لیگ ان کے ساتھ ہے۔ واقفان حال تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مولانا نے دھرنا اور جلسے جلوسوں کے لئے اخراجات کی تفصیل بتائی جو ظاہر ہے لاکھوں کا معاملہ نہیں اور کیپٹن صفدر نے بے فکر رہنے کی یقین دہانی کرائی‘ مگر اس کی تصدیق مولانا کر سکتے ہیں یا کیپٹن صفدر لیکن یہ دونوں کیوں کریں گے ؟چنانچہ یہ کہانی پھر سہی۔ اگر لاک ڈائون کی تاریخ پر اتفاق ہوا اور کسی نے مولانا کے ساتھیوں اور اتحادیوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے دیا تو اخراجات سے پتہ چل جائے گا کہ یہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے نام پر جمع ہونے والے عطیات ہیں یا وہ غیبی امداد جو ایسے مواقع پر مالدار لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر احتجاجی تحریک کو بہم پہنچاتے ہیں۔ ہمیں عرصہ دراز سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی تحریکیں صرف وہی کامیاب ہوتی ہیں جنہیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرنے والے مقتدر طبقوں کی تائید و حمائت حاصل ہو یا ہمارے قومی معاملات میں دخل اندازی کے عادی بیرونی عناصر کی اشیر باد میسر۔ بجا کہ عمران خان اور فوجی قیادت کے مابین بہترین تال میل ہمارے بیرونی مہربانوں کو پسند ہے نہ سول بالادستی کے علمبرداروں کے لئے قابل برداشت۔ بیرونی مہربانوں کو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام مرغوب ہے اور بالادستی کے علمبرداروں کو سول ملٹری تعلقات میں رخنہ اندازی محبوب ‘کہ وہ باور کرا سکیں دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہ وردی والے کسی منتخب حکمران کو چلتے ہی نہیں دیتے۔ایک سالہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی حمائت مگر بیرونی عناصر کر رہے ہیں نہ ’’وہ‘‘ جن کا نام لے کر ہمارے سیاستدان اپنے مخالفین کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ وجوہات دونوں کی الگ الگ ہیں۔ افغانستان اور کشمیر کی صورت حال دونوں میں قدر مشترک ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس کا ادراک ہے‘ میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ(ن) میں ان کے ہمنوائوں کو بھی مگر میاں نواز شریف سیاست کے زیرک کھلاڑی ہونے کے باوجود دائو کھیلنے کے موڈ میں ہیں‘ وجہ یہ ہے کہ گنوانے کے لئے اب ان کے پاس اقتدار ہے نہ سیاست۔ ہمارے ضلع راجن پور میں ایک تھانہ ہے شاہوالی‘ یہ دریائے سندھ کے دوسری طرف ہے۔ رحیم یار خان کے قریب اور راجن پور سے کوسوں دور ‘مگر ہے ضلع راجن پور کا حصہ۔ کہتے ہیں کہ ایک ایس پی کو تھانہ شاہوالی دیکھنے کا شوق چرایا اور وہ طویل سفر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ تھانے میں داخل ہوا تو کانسٹیبل چارپائی پر لیٹا تھا ۔ایک حوالاتی اس کی ٹانگوں کی مالش میں مصروف۔ وہ باوردی ایس پی کے احترام میں چارپائی سے اٹھا نہ سلام کا خوش دلی سے جواب دیا۔ ایس پی کو غصہ تو بہت آیا مگر کیا کر سکتا تھا ‘پوچھا مجھے جانتے ہو‘ کانسٹیبل بولا’’جناب آپ وردی اور پھولوں سے ایس پی لگتے ہیں‘ نہ جاننے والی کون سی بات ہے‘‘ ایس پی بولا پھر بھی بدتمیزی سے پیش آ رہے ہو‘ اٹھ کر سلام تک نہیں کیا‘ کانسٹیبل نے کہا حضور! شاہوالی سے دور کوئی تھانہ نہیں جہاں آپ میرا تبادلہ کر سکیں اور کانسٹیبل سے نیچے کوئی رینک نہیں کہ تنزلی کا ڈر ہو‘ چارپائی سے اُٹھ کراور سلیوٹ کی زحمت کون کرے۔؟ میاں صاحب سے تاج و تخت چھن گیا‘ عمر بھر انتخاب لڑ نہیں سکتے کہ وزیر اعظم کجا کسی یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہو سکیں‘ دو مقدمات میں سزا ملنے پر کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں اور دستیاب سہولتوں کو بھی عمران خان وقتاً فوقتاً ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔میاں شہباز شریف ضمانت پر رہا ہیں اور انہیں دوبارہ جیل یا نیب حوالات بھیجنے کی دھمکی دے کر مصالحت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے میاں نواز شریف کونہیں ؎ بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہُما بسے مولانا کی احتجاجی تحریک اگر چلے اور ناکام رہے تو زیادہ سے زیادہ میاں صاحب کی سودے بازی پوزیشن کمزور ہو گی بُرا جو بھی ہوا مولانا کے ساتھ ہو گا یا اُن مدارس کے منتظمین اور طلبہ کے ساتھ جو تحفظ ناموس رسالتﷺ کے نام پر تحریک کا حصہ بن کر لاٹھی گولی کا مقابلہ کریں گے لیکن اگر یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو تو سب سے زیادہ فائدے میں میاں صاحب رہیں گے۔یہ رسک میاں صاحب لینے پر تیار ہیں اور شائد ان کا اندازہ یہ بھی ہو کہ تحریک کی نوبت تو نہیں آئے گی مگر سودے بازی کے دوران مولانا متعلقہ اداروں کو یہ باور ضرور کرائیں گے کہ وہ شریف خاندان کے بارے میں عمران خان اور نیب کو ہاتھ نرم رکھنے پر آمادہ کریں۔ یوں مولانا سے زیادہ نواز شریف فائدے میں رہیں گے۔ یہ اندازے کا کھیل ہے بسا اوقات اندازے درست ثابت ہوتے ہیں اور گاہے اندازے کی غلطی سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں بیگم کلثوم نواز نے شریف خاندان کو ریسکیو کیا تھا‘ مریم نواز اپنی تلخ کلامی اور غیر دانش مندانہ حکمت عملی سے بیگم کلثوم نواز کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں‘ معاملات مزید خراب کر بیٹھیں۔ شہباز شریف پر دونوں باپ بیٹی کو شائد اعتباز نہیں‘ لہٰذا وہ کردار مولانا کو سونپا گیا ہے لیکن کشمیر اور افغانستان کی صورت حال نے مولانا کی آپشنز محدود کر دی ہیں اور بظاہر مولانا شائد دھرنے کی تاریخ ہی نہ دے پائیں۔ مولانا خادم حسین رضوی کے تجربے کے بعد عمران خان کی حکومت اور اس کی پشت پناہ اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد میں کسی مشتعل ہجوم کے داخلے کی متحمل نہیں۔ ایسا ہجوم جس کے مذہبی نعرے پیر افضل قادری کی یادیں تازہ کریں‘ البتہ امریکہ اور یورپ کویہ دکھانے کے لئے کہ پاکستان میں عمران خان کا متبادل اب مولانا ہیں باریک کام کرنے والے لاک ڈائون کے نعرے کو اس وقت تک برداشت کریں گے جب تک مولانا واقعی سنجیدہ نہیں ہو جاتے۔ جونہی مولانا نے نواز شریف اورمریم نواز کی طرح ہجوم کو سڑکوں پر لانے کی تیاری مکمل کی‘ شیخ رشید کے بقول گرم جگہ پر پائوں رکھا اور پتہ چلا کہ مولانا کی مذہبی قوت اور شریف خاندان کی سیاسی و مالیاتی صلاحیت کا ملاپ ہونے لگا ہے یہ تحریک بھی صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے انجام سے دوچار ہونے کا امکان ہے‘ مولانا دانا اور جہاندیدہ مذہبی سیاستدان ہیں انہوں نے واپسی کا راستہ مسدود نہیں کیا‘ ان کے پیادے ہر طرف بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ آخر میں کس کی مانتے ہیں ؟میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی؟دانش مندی کا تقاضا مصلحت اور مصالحت میں ہے اور مولانا دانش مند ہیں‘ ضدی نہ ہٹ دھرم۔