اسلام کے ہر دور میں اگرچہ عورتوں نے مختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ،اہل بیت کرام کی مقدس خواتین اور اکابر صحابیات رضی اللہ عنہن اُن تمام حیثیات کی جامع میں ۔اِس مقدس جماعت میں ایک عظیم الشان نام ’ حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہا ‘ کا ہے ۔جو اپنی کنیت کی ہی وجہ سے معروف تھیں ۔آپ کا لقب ’’شہیدۃ البحر ‘‘(سمندری شہیدہ)ہے ۔ آپ کا نسب کچھ اس طرح سے ہے :’’ ام حرام بن ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن عم بن عدی بن النجار ‘‘۔ آپ کی والدہ ماجدہ’ ملکیہ بنت مالک بن عدی‘ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ننھیالی قبیلہ بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ننھیالی قبیلہ سے بے پناہ پیار تھااور اس نسبت سے آپ حضرت ام حرام کا بہت خیال رکھتے تھے ۔حضرت ام حرام اور حضر ت اُ م سلیم رضی اللہ عنہما دونوں رشتہ میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں۔ (اس میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں )حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہا دو شہید بھائی حرام اور سلیم رضی اللہ عنہما کی بہن تھیں ،جنہوں نے جنگ بئر معونہ میں جام شہادت نوش کیا ،اِ ن کے ایک بھائی جن کا نام عمرو بن ملحان تھا قبیلہ بنو عامر کے سردار عامر بن طفیل کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب مبارک لے کر گئے تھے ۔ حضر ت ام حرام رضی اللہ عنہا ان خوش بخت صحابیات میں سے ایک تھیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود شہادت کی بشارت عطا فرمائی تھے ۔ اور وہ پہلی شہید خاتون ہیں جو سمندری محاذ کے دوران شہادت کے منصب پر فائز ہوئیں۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بخاری شریف میں2789اور مسلم شریف میں1912نمبر پر موجود ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی قبا تشریف لے جاتے توحضرت ام حرام کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے گھر کچھ دیر قیام فرمایا کرتے تھے حضرت ام حرام آپ کی خدمت میں کھانا پیش کرتیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام حرا م کے گھر تشریف لے گئے تب حضرت ام سلیم بھی گھر پر موجود تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا اور جب آپ بیدار ہوئے تو آپ نے تبسم فرمایا۔ حضرت ام حرام نے دریافت کیا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں مسکر ارہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایاکہ مجھ پرمیری امت کے کچھ لوگ پیش کئے گئے جو اس سمندر کے راستے جہاد فی سبیل اللہ کریں گے ۔وہ بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے ہوں گے ۔ اس پر حضرت ام حرام نے عرض کی کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میر ے لئے بھی دعا فرما دیں کہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں۔ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمانے کے بعد پھر محو استراحت ہو گئے ۔ جب آپ دوبارہ بیدار ہوئے تو آپ کے چہرہ اقدس پر تبسم رقصاں تھا۔ اس پر آپ کی جانثار صحابیہ نے پھر دریافت کیا کہ یارسول اللہ اس مسکراہٹ کا کیا سبب ہے ؟ آپ کے لب مبارک کیوں تبسم کر رہے ہیں ، آپ کے والضحیٰ والے مکھڑے پر مسکراہٹ کیوں رقصا ں ہے ۔ تو اس پر جان کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ وہی بات ارشاد فرمائی جو پہلے کہی تھی۔ اس پر حضرت ام حرام نے دوبارہ دعا کی درخواست کی۔ جس پر آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ توپہلے والے لوگوں میں شامل ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بشارت سن کر حضرت ام حرام بہت مسرور ہوئیں اور شاداں و فرحاں رہتیں۔ آپ کی بہن حضرت ام سلیم بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت رکھتی تھیں اور آپ ﷺپر اپنی جان قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔وہ اس انتظار میں رہتیں کہ کب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرم فرمائیں گے اور ان کا گھرانہ کب آپ کے قدموں کے شرف سے مشرف ہو گا۔ کب ان کا گھر بقعہ نور بنے گا وہ اکثر سراپا انتظار رہتیں اور جس جگہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرماتے ہمیشہ ایک چارپائی اور بستر کو صاف رکھتیں کہ کب ان کے بختوں کا ستارہ بلندی پر چلا جائے اور آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ انور قبا میں موجود ان کے گھر کی طرف ہو، معروف صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے فرزند اور حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ۔حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہا اور ان کے خاندان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصی انسیت تھی اور آپ کی درخواست پر ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لئے دعا فرمائی تھی۔حضور کی یہ دعا 28 ہجری میں پوری ہوئی جب جزیرہ قبرص پر حملہ کرنے کافیصلہ ہوا اور پہلا بحری بیڑہ تیار کیا گیا۔ اس حملہ میں کثیر صحابہ کرام موجود تھے حضرت ابو ذر، حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم جیسے بزرگ صحابہ اس لشکر میں شامل تھے ۔ حضرت ام حرم رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عمرو بن قیس انصاری سے ہوا غزوہ اُحد میں اُن کے شہادت کے بعد آپ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا ۔ آپ اپنے شوہر کے ہمراہ جہاد کے لیے روانہ ہوئیں جب بحری جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوا تو آپ گھوڑے پر سوار تھیں ۔ یہ بحری بیڑہ عمص کے ساحل سے روانہ ہوا اور قبرص فتح ہوا ۔واپسی پر آپ اپنی سواری پر سوار ہو رہی تھیں کہ نیچے گر پڑیں اور وہیں شہید ہو گئیں۔ یہ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تھا،آپ کامدفن جزیرہ قبرص میں مرجع خلائق ہے ۔ (ماخذ ومراجع: طبقات ابن سعد، بخاری ، مسلم ،اسد الغابہ ، الاصابہ )