پلٹ کر دیکھیں تو تاریخ یہ کہتی محسوس ہوتی ہے کہ کوئی بھی قوم اسی وقت سرفراز ہوتی اور بالیدگی پاتی ہے، جب اس کے دانشور اور سیاستدان زیادہ وسیع تناظر میں غور و فکر پہ قادر ہو سکیں۔جب وہ زمین اور زندگی کو آسمان کی بلندیوں سے دیکھنے لگیں۔ جب رومانوی اندازِ فکر کے ساتھ ساتھ کسی قدر عمل پسندی بھی کارفرما ہو۔ کنفیوشس کو چین کی معلوم تاریخ کا عظیم ترین مفکر مانا جاتا ہے؛اگرچہ ان کے اپنے دور چھٹی صدی قبل از مسیح میں لاؤ تزو کا ذکر زیادہ تھا۔ ہیرلڈلیم نے لکھا ہے کہ 35سال کی عمر میں کنفیوشس لاؤ تزو کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے تاریخ کی کچھ تفصیلات پر گفتگو کی۔ بوڑھے استاد نے سخت اور مختصر الفاظ میں جواب دیا: جن لوگوں کے بارے میں تم پوچھتے ہو، ان کی ہڈیاں خاک ہو چکیں۔ اپنے فخر اور اولوالعزمی، رعب جمانے کے خوف اور فضول مقاصد سے چھٹکارا حاصل کرو۔ ان باتوں سے تمہارے کردار کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ بتدریج کنفیوشس زیادہ مقبول اور موثر استاد کے طور پر ابھرا۔لاؤتزو کی دھاک بے شک زیادہ تھی لیکن کنفیوشس زیادہ عملی تھا۔ اتنا عملی کہ ریاست لوو کے نواب تِنگ نے اسے امن و امان کی وزارت پیش کی تو بلا تامل فلسفی نے قبول کر لی۔ایک چینی مورخ کے مطابق ’’دغا بازی اور بے ایمانی نے منہ چھپا لیا۔ وفاداری بیشتر کا وصف ہو گئی۔ کنفیوشس لوگوں کی نظر میں دیوتا بن گیا۔ ممکن ہے، اس میں کچھ مبالغہ ہو لیکن دوسرے مورخ بھی قدرے محتاط پیرائے میں یہی کہتے ہیں۔ جیسا کہ فطری ہے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نواب تنگ سے کنفیوشس بے زار ہوگیا۔ استعفیٰ دیا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ سفر پہ روانہ ہو گیا۔ رنج کے ساتھ اس نے کہا ’’ایک بھی ایسا آدمی نہیں ملتا جو نیکی کو خوبصورتی جتنا پسند کرتا ہو‘‘ بالآخر حالات بگڑے تو کنفیوشس کو پھر یاد کیا گیا۔ شاعری کے تیس مجموعوں نے آنے والی صدیوں میں مفکر کو زندہ رکھا۔ ماؤ غلبے کے چالیس سالہ دور میں ماضی کی طرف کھلتے بیشتر دریچے بند کر دیے گئے؛حتیٰ کہ خلقِ خدا کا سانس گھٹنے لگا۔ ماؤ کے بعد رفتہ رفتہ یہ چراغ پھر روشن ہوئے۔ دوسرے فلسفیوں کے علاوہ کنفیوشس کی کتاب ’’عظیم درس‘‘ پھر سے پڑھی جانے لگی۔ دو اقتباسات خاص طور پر دہرائے جاتے ہیں۔ ’’ساری سلطنت میں خیر کو فروغ دینے کے آرزومند قدما نے اپنے ملکوں میں تدریس کی۔ اپنے وطن میں ڈسپلن قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے انہوں نے اپنے گھروں کو منظم کیا۔ اپنے گھروں میں نظم قائم کرنے کی آرزو میں پہلے انہوں نے خود کو ٹھیک کیا۔ خود کو ٹھیک کرنے کی تمنا میں اپنے دلوں کو انہوں نے صاف کیا۔ اپنے دلوں کو صاف کرنے کی خواہش میں سب سے پہلے اپنی سوچوں کو بے لوث بنانے کی کوشش کی۔ سوچوں کو بے لوث بنانے کی خواہش میں انہوں نے اپنے علم سے استفادہ کیا۔ دوسروں کو اس میں شریک کیا۔ علم کا فروغ تحقیق میں چھپا ہوتا ہے۔ تحقیق سے علم کی تکمیل ہوئی۔ تکمیل کے اس عمل میں ان کی فکر اجلی ہوتی گئی۔ بے لوث فکر نے ان کے دل صاف کیے۔ دل صاف ہوئے تو شخصیت پاکیزہ ہوتی گئی۔ شخصیت کے پاکیزہ ہونے پر ان کے گھر سنور گئے۔ گھروں کے سنورنے پر ریاستوں کو اچھی حکمرانی عطا ہوئی۔ ریاستوں میں اچھی حکمرانی پر سب لوگ مطمئن اور مسرور ہونے لگے۔ آغا شورش کاشمیری نے لکھا تھا: قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی، حکمت و دانش میں گندھے لیڈروں کے بل پر متشکل ہوتیں اور آخر کار سیاستدانوں کے ہاتھوں بکھرنے لگتی ہیں۔ آغا شورش کاشمیری کے ذہن میں کیا اقبالؔ اور قائدِ اعظم تھے؟ باور کیا جاتاہے کہ قائدِ اعظم کے وہ قائل نہیں تھے۔1972ء میں ان کے جریدے ’’چٹان‘‘ سے یہ طالبِ علم وابستہ رہا۔ میرا تاثر اس کے برعکس ہے۔ آدمی کیلئے اپنے ماضی کی نفی مشکل ہوتی ہے۔ کم از کم اعلانیہ طور پر لیکن یہ سمجھنا درست نہیں کہ تحریکِ احرار سے وابستہ آغا جی تحریکِ پاکستان سے بے زار ہی رہے۔ اپنی خودنوشت کے آخری باب میں تحریکِ پاکستان کا ذکر انہوں نے مثبت انداز میں کیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ 1947ء سے 1974ء تک پیہم وہ پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ملک بنانے کی جدوجہد میں ایک والہانہ جذبے کے ساتھ شریک رہے۔ 1965ء کا معرکہ فیصلہ کن نہ ہو سکا تو وہ قلق کا شکار تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد افواج سرحدوں سے بلائی گئیں تو آغاکی حالت دیدنی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک اجتماع میں ان کی درد بھری آواز سنائی دی: رات نے رختِ سفر باندھا سرِ تسلیم خم مہر و ما کی رونقیں بھی رہنما واپس کریں آستیں کے خنجروں کی تیز دھاروں سے کہو ماؤں کے بیٹوں کا خونِ ناروا واپس کریں پاکستانی ادیبوں اور شاعروں میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں، جو احساس اور جذبے کی اسی شدت کے حامل تھے۔ پھر ان میں سے کوئی کنفیوشس کیوں نہ اٹھا۔ اس سوال کا واضح جواب تو یہ ہے کہ زندگی کی بساط پر ایسے لوگ آئے دن نمودار نہیں ہوتے۔ وہ استثنیٰ کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ جب کسی قوم کو کوئی عظیم دانشور نصیب ہوتا ہے تو اس کے بعد ویرانی کے موسم آتے ہیں۔اقبالؔ کے بعد کوئی اقبالؔ نہیں اٹھتا۔ اسے المیہ کہیے یا قدرت کی بے نیازی کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہم بے ثمر مباحث میں الجھ گئے۔ اتنی قوت اور شدّت کے ساتھ کہ اہلِ دانش اپنے اپنے گروہوں اور قبیلوں کے ہو کر رہ گئے۔ دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش جو آخری تجزیے میں یکسر بے معنی تھی۔ لاکھوں پرجوش اور ذہین نوجوانوں کی زندگیاں یہ گروہ ہڑپ کر گئے۔ یہ 1960ء کے عشرے کی بات ہے، ایک نہایت ممتاز عالمِ دین نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جلسہ ء عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ظہر کے وقت اقتدار نصیب ہو تو نمازِ عصر سے پہلے میں اسلامی نظام نافذ کر دوں گا۔ استعماری عہد میں تشکیل پانے والی پولیس اور سول سروس کے ہوتے یہ کارنامہ وہ کیسے انجام دیتے؟ انہی دنوں قرآنِ کریم کی تفسیر میں منہمک تھے۔ دیباچے میں آپ نے لکھا: یہ خدمت میں نے فرقہ ء مودودیہ کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کو دور کرنے کے لیے لکھی ہے۔ یا للعجب! اللہ کی آخری کتاب کی تشریح کیا اتنے محدود مقصد کے لیے کی جا سکتی ہے؟ یہ فریضہ تو عالی جناب ویسے بھی انجام دے سکتے۔ اردو زبان کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک شائستہ اطوار فیض احمد فیض ؔ اخبارات و جرائد کو انٹرویو دینے سے گریز کرتے۔ با ایں ہمہ 1984ء میں ممتاز کالم نگار عبد القادر حسن سے گفتگو پر آمادہ ہو گئے۔ خلاصہ یہ تھا: افغان مجاہدین سوویت یونین کو شکست دے سکتے ہیں اور نہ سوویت افواج مجاہدین کو۔ معاشرے میں برپا خوفناک کشیدگی کے ہنگام یہ بھی جرأت رندانہ کا اظہار تھا۔ ان کی پیش گوئی تو بہرحال غلط ثابت ہوئی۔ افغان مجاہدین نہ صرف سوویت یونین کو ہزیمت سے دوچار کرنے میں کامیاب رہے بلکہ اسے بکھیر ڈالا۔ یہی نہیں اس کے بعد سب سے بڑی عالمی قوت ریاست ہائے متحدہ کا سامنا بھی کیا۔راہِ فرار اختیار کرنے پر اسے مجبور کر دیا۔ پلٹ کر دیکھیں تو تاریخ یہ کہتی محسوس ہوتی ہے کہ کوئی بھی قوم اسی وقت سرفراز ہوتی اور بالیدگی پاتی ہے، جب اس کے دانشور اور سیاستدان زیادہ وسیع تناظر میں غور و فکر پہ قادر ہو سکیں۔جب وہ زمین اور زندگی کو آسمان کی بلندیوں سے دیکھنے لگیں۔ جب رومانوی اندازِ فکر کے ساتھ ساتھ کسی قدر عمل پسندی بھی کارفرما ہو۔