خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم پاس کہیں رکھیں گے خواب خوش نما کا احساس اور پھر احساس زیاں کا قلق دونوں ہی جان لیوا ہوتے ہیں ایک روگ وصل کی طرح اور دوسرا فرقت کی جاں کنی کی طرح۔ خیر موضوع سے پہلے دو تین پیاری پیاری اور دلگداز خبریں جو ہمارا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔ وہی دامان یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے میں چاہتا ہوں کہ ان خبروں کی نشاط انگیزی کو میرے قارئین بھی محسوس کریں اور خط اٹھائیں۔ پہلی گل افشانی بلاول نے کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کرپٹ ترین ہے۔ گویا یہ ایک تخلیقی طنز ہے۔ اگر انہوں نے ’’ترین‘‘ لفظ سپر لیٹو کے لئے لگایا ہے کہ یہ حکومت سب سے زیادہ کرپٹ ہے تو یہ مبالغہ ہے کہ موازنہ ان کا زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں سے ہو گا تب یہ فقرہ تو کائونٹر اٹیک لگتا ہے کیونکہ کرپشن کے بے تاج بادشاہ تو سب پر بھاری ہیں کہ اس بات کی شہادت میں کھر صاحب کی زبان سے دے سکتا ہوں کہ انہوں نے خود مجھے بتایا تھا کہ جب وہ ان کے ساتھ صاحب اختیار تھے تو انہیں کہا گیا کہ وہ دس فیصد پچاس فیصد پر مطمئن ہونگے۔ گویا ٹین پرسنٹ سے ہنڈرڈ پرسنٹ کہنا وہاں بھی مبالغہ ہی تھا۔ بلاول کے جواب میں وفاقی وزیر نے انہیں ’’سیاسی مایوس‘‘ قرار دیا ہے تو یہ بھی زیادتی ہے یہاں تو ایسے لگتا ہے جیسے مایوس ان کا تخلص ہے اور وہ شاعر ہیں۔مایوسی کچھ اور شے ہے مایوس تو سدا کے عوام ہیں کہ سب نے باری باری انہی کو مایوس کیا۔ بلاول عوام میں سے نہیں ہیں کہ ان کے جلوس میں کوئی بچہ بھی مر جاتے تو عام سی بات سمجھی جاتی ہے کہ حکمران تو حکمران ہوتا اور پھر جدی پشتی۔ لطیف ساحل یاد آئے: تری سواری تلے آئے مر گیا جو شخص ترا قریب سے دیدار کرنے والا تھا یہ وہ مایوسی بھی نہیں جو دیواروں پر لکھی ہوتی ہے کچھ مایوسی شہباز شریف کے حصے میں ضرور آتی ہے مگر وہ مکمل طور پر مایوس نہیں اور گمان کرتے ہیں کہ کب ہما ان کے سر پر آن بیٹھے۔ پاکستان میں کسی بھی وقت کسی کی بھی قسمت جاگ سکتی ہے اس کے لئے یہاں کی شہریت بھی ضروری نہیں۔ یہاں وزارت عظمیٰ درآمد بھی کر لی جاتی ہے۔ بہرحال میں زیادہ بات کرنے سے گریز ہی کروں گا کہ بات بھی سچی ہے اور رسوائی کی بھی ہے۔ ویسے بھی یہ نازک لوگ ہیں مکڑی کے جالے کی طرح۔ پتہ نہیں ایک رومانٹک سا چمکتا ہوا خیال کیوں ذھن میں آ گیا: کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے میرے معزز قارئین پہلی خبر ہی طوالت پکڑ گئی اور شیطان کی آنت بن گئی۔ دوسری خبر کی بات کو ذرا مختصر کر لیں گے کہ لندن میں ایک خاتون کو پکڑ لیا گیا ہے جو گزشتہ 15سال سے لندن کے کرتا دھرتا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی اور خود کو نابینا ثابت کر کے حکومت سے الائونس لے رہی تھی۔ وہ کسی کیمرے کی زد میں آ گئی کہ اخبار پڑتی ہوئی دیکھی گئی۔ اس نے اندھا ہونے کی ایسی فنکاری کی کہ 15سال تک کسی پہ نابینا پن کھلنے نہ دیا بلکہ دوسروں کو اندھا بنائے رکھا۔ نہ صرف اس خاتون کو سزا ہوئی بلکہ اس کی بیٹی کو بھی کہ جس نے ماں کی اس واردات کو چھپایا اور حکومت کو اطلاع نہ دی۔ کہ قبلہ!یہ ہوتی ہے حکومت اور گڈ گورنس۔ وہاں مجرم آخر پکڑا جاتا ہے پھر معافی نہیں ملتی۔ ایک خیال میرے ذہن میں اور آیا کہ ایسی صورت حال بھی آ جاتی ہے کہ اندھا بننا پڑتا ہے کہ آنکھوں سے کام نہیں نکلتا: جو بھٹکتا ہے وہ راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے لندن میں ایک اندھی نہیں چل سکی مگر ہمارے ہاں تو گھوسٹ سکول سے لے کر گھوسٹ ملازمین تک سب کچھ چلتا ہے۔ریلوے اس حوالے سے کافی شہرت رکھتا تھا کہ ملازمین صرف تنخواہیں ہی وصول کرتے تھے وہاں مصلحتاً یا ڈر کے مارے اوپر بیٹھے ہوئے سب اندھے بنے رہتے ہیں یا پھر ان کی آنکھوں کو بند کرنے کے لئے ان کا حصہ پہنچ جاتا ہے۔ حکمران تو ویسے بھی اندھے ہوتے کہ بار بار ریوڑیاں اپنوں میں بانٹتے ہیں۔ اسی چکر میں سٹیل مل پی آئی اور دوسرے اداروں کا بیڑہ غرق کیا گیا۔ اپنی اپنی پارٹیوں کے کارکن ان اداروں میں کھپائے گئے یقینا یہ سفارشی نالائق تھے سب کچھ برباد ہو گیا کسی نے تو پوری کی پوری برادری ہی پولیس وغیرہ میں گھسیڑ دی۔سارے ہی اندھے بنے رہے کوئی آنکھ والا آ گیا تو سارے ہی اس پر ٹوٹ پڑے۔ اب بتائیے کہ موضوع کے لئے تو کالم میں جگہ ہی نہیں بچی۔ ویسے اس کا تعلق بھی اندھا پن سے تھا کہ کس طرح سے عزیر بلوچ جیسے لوگوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دی گئی۔ نہ صرف اخبارات بلکہ سب نے اس قماش کے لوگوں کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ جو لوگ سوال اٹھانے والے ہیں وہ ان بدمعاشوں کی دعوتیں کرتے رہے۔ دوسری بات یہ کہ اس ایشو کی ٹائمنگ کیا ہے کہ آپ لوگوں کی توجہ مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اب دیکھیے ایک اور نئی پیش رفت ہے کہ عزیر بلوچ اپنے بیان سے ہی منحرف ہو گیا ہے تو گویا اسے اب کہیں سے ہلہ شیری نہیں ضمانت مل گئی ہو گی۔اب علی زیدی کیا کریں گے۔ ایک معمہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ سچی بات تو یہ کہ اخلاقی دیوالیہ کی یہ بہترین مثال ہے۔ کراچی میں جنہوں نے لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا حتیٰ کہ پولیس کو عبرت کا نشان بنایا وہ تقریباً ہر حکومت کے اتحادی رہے۔ سب ہی قاتل ہیں یا قاتل کے طرفدار: قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں بے حسی وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں اپنی بربادی پہ عبرت نہ ندامت کوئی زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں بہرحال ایک ظلم کی تیرگی ہے اور اوپر سے اندھوں کی بستی ہے۔