دیش رتن نگم، یہ نام آپ نے بھی میری طرح پہلی بار سنا ہوگا۔یہ صاحب وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی کی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بھگت ہیں اوروکیل ہونے کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے مفکر بھی ہیں۔اس ہستی کو جاننے کا موقع ہمارے ایک دوست کے ذریعے ملا جو اکثر دنیا بھر سے دلچسپ ویڈیوز گاہے بگاہے وٹس ایپ پر بھیجتے رہتے ہیں۔ جمعہ کی صبح اٹھا تو دیش رتن نگم صاحب کی ایک ویڈیو موصول ہو چکی تھی ۔ موصوف گزشتہ سال مارچ میں NDTVبھارتی چینل ایک پروگرام Big Fightجس کے ہوسٹ مشہور اینکر وکرم چڈا ہیں ، میں جلوہ افروز ہوئے اور بحث ہو رہی تھی بھارت کے نیشنل آئیکون کے حوالے سے۔1628ء سے 1658 ء تک ہندوستان میںحکمرانی کرنے والے مغل شہنشاہ شاہجہاں کے حوالے سے جب وکرم نے پوچھا کہ آپ انہیں نیشنل آئیکون مانتے ہیں تو دیش رتن نے جھلا کے کہا کہ وہ کیسے نیشنل آئیکون ہو سکتا ہے۔انکی جھلاہٹ کو دیکھتے ہوئے تجربہ کار اینکر نے فوراً سوال داغا تو پھر تاج محل تو ہے نا نیشنل آئیکون۔ دیش نے اسے نیشنل آئیکون تو مان لیا لیکن کہا کہ یہ در اصل ہندو راجپوت حکمران نے 1080 ء میں بنایا تھا اور اسکا نام تیجو محلایا تھا جسکو تبدیل کر کے شاہجہاں نے تاج محل بنا دیا۔اس نے اپنے دعوے کی تائید میں کہا کہ اس کے ارد گرد آپ ہندو مذہب کے آثار آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔پروگرام کے میزبان کو اندازہ ہو گیا کہ یہ صاحب تاریخی معلومات کے حوالے سے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کے عدسے سے ہر شے کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے جامع مسجد دہلی کے بارے میں پوچھا تو جواب انکی توقع کے عین مطابق تھا۔ موصوف نے کہا کہ یہ یمنا مندر کو بدل کر مسجد بنائی گئی ہے۔ دلیل انکی یہ تھی کہ مسلمانوں کی مساجد زمین کی سطح سے بلند نہیں ہوتی جبکہ ہندو مندر دریا کنارے بنتے ہیں اور انکی ڈھیروں سیڑھیاں ہوتی ہیں، اس لئے جس مسجد کے باہر ڈھیروں سیڑھیاں ہوں تو وہ اصل میں مندر ہی تھا۔ دیش رتن نگم نے صرف یہاں پر بس نہیں کی بلکہ لال قلعہ کے حوالے سے بھی سامعین کو اپنی تاریخی معلومات سے خوب فیضیاب کیا۔انہوں نے اسکی تعمیر کا سہرا بھی بہت پرانے زمانے کے بادشاہ تومار راج کے سرسجا دیا اور کہا کہ یہ بھی مغلوں کا کارنامہ نہیں ہے۔اس پروگرام میں سامعین بھی ہوتے ہیں اور سب سے بڑھکر ایک ایسی شخصیت بھی اس دن پروگرام میں موجود تھی جن کا نام عرفان حبیب ہے اور وہ ایک مشہور تاریخ دان ہیں۔ سامعین ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوتے رہے اور پینل کے دوسرے مہمان بشمول اینکر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اینکر نے تنگ آ کر پوچھا کہ یہ بتائیے کہ جموں وکشمیر میں موجود درگاہ حضرت بلؒ کس نے تعمیر کی تھی۔یہ وہ واحد موقعہ تھا جب دیش رتن نے ہار مانی اور اس بارے میں لا علمی کا اظہار کیا۔اس کے بعد ان صاحب کے ساتھ سوشل میڈیا پر وہی کچھ ہوا جس کے وہ حقدار تھے۔ چلیں سیاسی کارکن اپنی جماعت اور قائدین کے ساتھ مخلص ہونے کے ناطے بار بار جان بوجھ کر دھوکا کھاتے ہیں لیکن بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی بی جے پی کے ایک کارکن بن کر رہ گئے ہیں۔ جس قسم کے دعوے اور بیانات وہ دے رہے ہیں وہ آرمی چیف کم بی جے پی کے ترجمان زیادہ لگتے ہیں۔ اس واقعے سے ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ بر صغیر میں سیاسی ورکر کسی بھی نظریے کی بھلے وہ سرے سے نظریہ ہی نہ ہو اندھی تقلید کرتے ہیں۔ ان میں دیش رتن نگم جیسے پڑھے لکھے مفکر بھی شامل ہیں اور عام جنتا کی تو کیا ہی بات کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملکوں میں حکمران تین تین دہائیوں تک حکمرانی کر تے رہے اور آج بھی انکے پیروکاروں کی تعدا میں کوئی خاطر خواہ کمی واقعہ نہیں ہوئی۔ پاکستان کی بات کریں تو پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دوسری چھوٹی بڑی جماعتوں کے مقلدین کا یہی حال ہے۔ وہ اپنے لیڈروںکو مافوق الفطرت خوبیوں کے مالک ، غلطیوں سے مبرـا اور انکا کہا پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں۔عمران خان اگر یو ٹرن کو اپنی پالیسی بنائیں تو اسکے حق میں انکے چاہنے والے دلائل کے انبار لگا دیں گے۔ کل کو وہ کہہ دیں کی یو ٹرن لینے والا بھی کوئی لیڈر ہوتا ہے تو اس پر بھی واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جائیں گے۔ لاڑکانہ میں اپنے ہوم گرائونڈ میں ڈیڑھ سال میں دوسری بار الیکشن ہار کر پیپلز پارٹی اپنے ورکروں کو ایک بار پھر اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے ورنہ وہ الیکشن جیت گئے ہوتے۔ پنجاب میں پارٹی کا صفایا ہو گیا ہے لیکن بضد ہیں کہ بھٹو زندہ ہے اور کارکنوں کو بھی یقین رہے گا ۔اسی طرح سے میاں نواز شریف اپنے تمام تر مقدمات میں کسی الزام کے جواب میں ایک بھی گواہی اپنے حق میں نہ پیش کر سکے اور خلائی مخلوق کے کھاتے اپنی نااہلی ڈال کر پتلی گلی سے نکل گئے۔ انکے کارکن اس بات پر بھر پور یقین رکھتے ہیںاور انہیں بیگناہ سمجھتے ہیں۔ آجکل کے جدید دور میں جہاں دنیا بھر کی تاریخ آپکی دسترس میں ہر وقت ہے۔حقائق جاننے کے لئے آپ کو کوئی زیادہ تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اندھی تقلید میں جو الٹی سیدھی خبر یا بات ان سیاسی وفاداروں کو بھیجتے ہیں وہ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے انسانی المیے اس غیر ضروری عمل کی نذر ہو جاتے ہیں اور اصل مدعا غائب ہو جاتا ہے۔بھلے وہ میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے انتہائی گھمبیر صورتحال ہو یا پھر ساہیوال سانحہ کا فیصلہ ہو۔ اپنی اپنی ہمدردیاں اور سیاسی ضروریات کے مطابق ہر کوئی حصہ ڈال رہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہے جارہے ہیں کہ ایسے معاملات سیاست کی نذر نہیں ہونے چاہئیں۔اندھی تقلید میں صحیح یا غلط میں تمیز کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔ہم سب دیش رتن نگم بنتے جا رہے ہیں۔