افغانستان کی طویل جنگ آخر کار طالبان کی مکمل فتح کی صورت میں اختتام پذیر ہوئی ۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طویل ترین افغان جنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ افغانستان میں مزید جنگ جاری رکھنا امریکی عوام کے مفاد میں نہیں تھا۔ انہوں نے افغان جنگ کے خاتمے کی ذمہ داری قبول کی۔ طالبان نے خود انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے کا وعدہ کیا۔ اندازہ نہیں تھا کہ اشرف غنی افغانستان سے فرار ہو جائے گا۔ طالبان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے بلکہ ان کے عمل کو دیکھیں گے۔ ہماری خواہش ہو گی کہ افغانستان دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انخلا کا فیصلہ سول اور فوجی قیادت کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالباان کی فتح ایک معجزانہ فتح ہے اور دنیاوی لحاظ سے امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان سے بہت زیادہ طاقتور تھے۔ طالبان نے اپنی قوت ایمانی سے دشمن کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کو اس جدید دور میں درست ثابت کیا ہے کہ مٹھی بھر قوت ایمانی سے لوگ بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں چند دانشور ایک عجیب قسم کے تذبذب کا شکار ہیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا کہ اس دور جدید میں ایسے بھی ہو سکتا ہے جس بلند و بانگ دعوے کے ساتھ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور چار امریکی صدور نے مسلسل اپنی بہترین کوشش کی کہ وہ کسی طرح افغانستان کے عوام کو شکست دے سکیں لیکن ان کی ایک نہ چل سکی۔ اب امریکی صدر فرماتے ہیں کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ امریکی مفاد میں نہیں ہے اور یہ کہ چین اورروس کی خواہش ہے کہ وہ اس دلدل میں پھنسے رہیں اور اپنی طاقت کو ضائع کرتے رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر بالکل صحیح کہہ رہے ہیں لیکن امریکہ نے اس صحیح فیصلے پر پہنچنے میں بیس سال صرف کئے ہیں اور ان بیس برسوں میں امریکہ نے ایک سپر پاور کے طور پر اپنی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور جس ذلت اور رسوائی کا سامنا کیا ہے اس کی مثال حالیہ تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشور جن کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں‘ اب اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہیں اور طالبان کی فتح میں طرح طرح کے کیڑے نکال رہے ہیں۔ اب وہ یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ طالبان بہت پڑھ لکھے نہیں ہیں اور ان کے لیے ملک کی معیشت کوسنبھالنا مشکل ہو گا اور یہ کہ وہ ایک موثر انتظامی ڈھانچہ تشکیل نہیں دے سکیں گے۔ انہیں مغربی طاقتوں کی مدد کی بڑی سخت ضرورت ہوگی۔ چند لوگوں کو یہ فکر بھی کھائے جا رہا ہے کہ تقریباً بیس ارب ڈالر مالیت کے جو ہتھیار اور ساز و سامان امریکہ چھوڑ کر گیا ہے کیا طالبان اسے استعمال کرسکتے ہیں یا انہیں تکنیکی مدد کے لیے یورپی ممالک پر ہی بھروسہ کرنا پڑے گا۔ ان ہتھیاروں کے لیے مختلف حصوں پرزوں کی بھی ضرورت پڑے گی جو افغانستان کو امریکہ سے ہی لینے پڑیں گے اس لیے افغان حکومت کسی حد تک امریکہ کی محتاج رہے گی۔ بعض دانشور عمران خان حکومت کے بغض میں پاکستان کی افغان پالیسی کو بھی کوئی کریڈٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور پاکستان کو خوفزدہ کرنے کے لیے مسلسل منفی تبصرے کر رہے ہیں۔ انہیں افغانستان میں لوٹ مار اور کشت و خون کے وہ مناظر بھی نظر آ رہے ہیں جن کو امریکہ اور برطانیہ کے نشریاتی ادارے بھی نہیں دیکھ پا رہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کا کام مشکل تر بنانے کے لیے یہ دانشور ان غلطیوں کا ذکر بھی مسلسل کر رہے ہیں جن کا ارتکاب ماضی میں پاکستان کی حکومت نے طالبان کے حوالے سے کیا تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا اثر پاکستان اور طالبان حکومت کے آئندہ تعلقات پر پڑے گا۔ بعض لوگ پنجشیر کی صورت حال کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور اس شک میں مبتلا ہیں کہ جس طالبان طاقت نے دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کو شکست دی ہے شاید وہ پنجشیر کے چند باغیوں کے سامنے ڈھیر ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے سامنے مسائل کے پہاڑ ابھی موجود ہیں اورانہیں یہ پہاڑ سر کرنے ہیں لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ طالبان نے سب سے بڑا معرکہ جیت لیا ہے جس سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ طالبان رہنما کر رہے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ وہ پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ ان سطور کے چھپنے تک شاید افغان حکومت کے خدوخال کسی حد تک واضح ہو چکے ہوں گے جہاں تک معیشت کا تعلق ہے افغانستان کے پاس مغربی طاقتوں کا متبادل چین اور روس کی شکل میں موجود ہے۔ چین اور روس افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان میں معدنیات کا خزانہ سرمایہ کاروں کا منتظر ہے۔ ابھی تو ابتدا ہے انشاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ دنیا کے بیشتر ممالک افغانستان کی حکومت کو جوق در جوق تسلیم کریں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہترین تعلقات ہوں گے۔ پاکستان اور افغانستان مل کر دہشت گردی کا قلع قمع کریں گے۔ داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیمیں ہماری مشترکہ دشمن ہیں۔ داعش کے تانے بانے خود امریکہ سے ملتے ہیں۔ اب امریکی صدر امید کر رہے ہیں کہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز نہیں بنے گا لیکن شاید وہ بھول گئے ہیں کہ خود امریکہ کے ہاتھوں پر لاکھوں لوگوں کا خون ہے۔ وہ اپنے ملک سے ہزاروں میل دور پر امن ممالک پر حملہ آور ہوا ہے اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کا خون بہا یا ہے۔ دوسروں تو نصیحت کرنے کے بجائے انہیں اپنے طز عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ افغانستان نے تو امریکہ کو ایسا سبق سکھایا ہے کہ آئندہ دور دراز کے ملکوں پر حملہ کرنے سے پہلے وہ کئی بار سوچے گا۔ اگرچہ ایک امریکی ترجمان نے صومالیہ اور سوڈان کو اپنے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ عجیب منطق ہے کہ چھوٹے چھوٹے غریب مالک ایک سپر پاور کے لیے خطرہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ ہماری حکومت نے جس تحمل اور دلیری سے افغان مسئلے سے نمٹا ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جائے لیکن پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی نے بڑی حد تک ان کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ ہماری اپوزیشن جماعتوں اور نام نہاد دانشوروں کو کم از کم خارجہ محاذ پر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے اور بغض عمران میں پاکستان مخالف بیانات اور اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ امریکہ نواز پاکستانیوں کے لیے طالبان کی فتح میں ایک بہت بڑا سبق موجود ہے۔ طالبان کی فتح کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوا ہے۔ پاکستان کی مغربی سرحدیں انشاء اللہ محفوظ ہو جائیں گی۔ پاکستان کے دہشت گردوں کے لیے ایک بڑی پناہ گاہ کا خاتمہ ہوا ہے۔ پاکستان کے غداروں کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان اللہ کے فضل سے پاکستان کا مثالی ہمسایہ ثابت ہوگا۔ کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہو ںگے ۔ بھارت کو تین چار ارب ڈالر کا خسارہ ہوا ہے۔ کشمیر کے بارے میں طالبان کا بیان بھارت کے لیے کسی خنجر سے کم نہیں ہے۔ ہمیں طالبان کی فتح پر خوش ہونے کا پورا حق ہے۔