رواں سال تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے، موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے دوسرا سال ہے ، تحریک انصاف نے الیکشن کے موقع پر وسیب کے لوگوں سے بہت سے عہدو پیمان باندھے تھے سو دن میں صوبہ بنانے سے متعلق ایک تحریری معاہدہ بھی وجود میں آیا تھا، وسیب کے لوگ ایک ایک پل اور ایک ایک دن گن رہے ہیں، وہ اب بھی آس اور امید لگائے ہوئے ہیں کہ حکمرانوں کو کبھی تو اپنے وعدوں کا خیال آئے گا، مگر صرف وسیب ہی نہیں ملک کے 22 کروڑ لوگوں کو تبدیلی کی صورت میں جو کچھ ملا ہے وہ خون کے آنسو رلانے کیلئے کافی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ حکمران اقتدار کے نشے میں مست ہیں مگر اقتدار آنی جانی چیز ہے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کا حشر سب کے سامنے ہے، اگر موجودہ حکمران اپنے وعدوں کا پاس نہیں کرتے تو انجام اُن سے بھی بھیانک ہو سکتا ہے کہ انسان اقتدار یا دولت سے نہیں اپنی سوچ سے بڑا ہوتا ہے۔ ایک بڑے انسان کا تذکرہ کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معروف سرائیکی شاعر دلنور نور پوری کی ساتویں برسی گزشتہ روز منائی گئی ۔ اس سلسلے میں دھریجہ ادبی اکیڈمی کی طرف سے تقریب منعقد ہوئی ۔ مقررین نے کہا کہ کوئی بھی انسان اپنی دولت ، عہدہ یا منصب سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ اپنی سوچ سے بڑا ہوتا ہے، ہمارے ملک میں سرداروں، جاگیرداروں، تمنداروںاور دولتمندوں کی کوئی کمی نہیں یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے انگریزوں سے بڑی بڑی مراعات، عہدے اور جاگیریں حاصل کیں، مگر آج اُن کا نام وطن وسیب کے وفاداروں کے طور پر نہیں لیا جاتاالبتہ وہ غریب جنہوں نے اپنی سوچ اور اپنی فکر سے ملک و قوم کی خدمت کی آج وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور اُن کو لوگ یاد کرتے ہیں، سئیں دلنور نور پوری ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے، اُن کی یاد میں منائی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف ادیب پروفیسر شوکت مغل ‘ ڈاکٹر مقبول گیلانی ، نذیر احمد بزمی ‘ حاجی عید احمد دھریجہ نے اظہارِ خیال کیا ۔ مقررین نے کہا کہ دلنور نور پوری ایک شخص نہیں ایک عہد کا نما ہے، ان کی وسیب کیلئے بے پناہ خدمات ہیں ۔ دلنور نور پوری کے والد کا نام ملک محمد موسیٰ ، ذات کھوکھراور سکنہ موضع چھپری چھتن شاہ اللہ آباد تحصیل لیاقت پور ہے۔ دسمبر 1957ء میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مکتب سکول بستی بپڑاں موضع ٹانوری ، پرائمری گوٹھ امین اور مڈل کے ساتھ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول الہ آباد میں سے کیا1975ء میں سرائیکی مشاعرے میں فیض محمد دلچسپؔ کا کلام سنا تو شاعری کا عشق دل پر سوار ہو گیا ، میٹرک کے امتحان کی بجائے شاعری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی ، شاعروں کی آستانے پر حاضریاں شروع کر دیں ۔ دلچسپؔ مرحوم وقت نہ دے سکے تو دلکش اماموی نے شاگرد بنا لیا ۔ والد اور بھائیوں نے بڑی کوشش کی کہ احمد بخش میٹرک کا امتحان دے اور شاعری کے چنگل سے آزاد ہو جائے مگر احمد بخش سئیں کو شاعری کے ’’ جن ‘‘ نے مکمل طور پر قابو کر لیا ۔ بستی چھپری چھتن شاہ تحصیل لیاقت پورضلع رحیم یار خان کا دراز قد ‘ گوری رنگت اوردلکش نقوش والا نوجوان احمد بخش شاعر بننے کے بعد دلنور ؔبن گیا اور انہوں نے نظمیں لکھنی شروع کر دیں ۔ نظم ’’ وانڈھے دی ارداس ‘‘ لکھی تو دھوم مچ گئی ، ہر محفل اور مشاعرے میں فرمائشی سلسلے شروع ہو گئے ۔ حوصلہ افزائی ہونے کے بعد دلنور نے ’’ لال کنوار ، ڈٖوجھی شادی، بے فرمان پُتر ، ووٹ دا حقدار کون ‘‘ اور اس طرح کی درجنوں مزاحیہ اور اصلاحی نظمیں لکھ کر داد سخن وصول کی۔ سرائیکی کی محبت نے زور پکڑا تو دلنورؔ نے چا رصفحے اور سولہ صفحے کے کتابچے چھپوا کر عام کرنا شروع کر دیئے ۔ سرائیکی کی محبت میں دلنور ؔ نے اپنی ذات کی نفی کر دی ،ان کو اپنی خوبصورت جوانی کی پرواہ نہ رہی ، سودائیوں کی طرح سرائیکی کتابوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ، شہر کے ہر معروف چوک ، بسوں کے اڈے ، پیروں فقیروں کے عرس، کوڈ ی کُشتی کے میلوں ، نلی گسنی کے میلوں ، مرغوں کی لڑائی ، کبوتروں کے میلے ، اُونٹوں کے دنگل غرض ہر گلی محلے کے اہم موڑ پر دلنور اپنی کتابوں کے ساتھ پہنچ جاتے اور زور دار آواز کے ساتھ ’’ ہوکا ‘‘ دیتے ،بھراؤ! اے ہے سرائیکی وچھوڑا ایں وچ ہے چالھی ڈٖوہڑہ مُل ہے ایندا بہوں تھوڑا ہک روپیہ بھئی ہک روپیہ سئیں دلنور نور پوری سے بندہ ناچیز کی نیاز مندی 11جون 1990ء کو خانپور میں پیدا ہوئی جب وہ سرائیکی اخبارجھوک کے پہلے شمارے کے موقع پر مبارکباد دینے کیلئے تشریف لائے وہ دن اور آج کا دن ، ہم ہمیشہ ایک ساتھ رہے، انہوں نے دلنور پبلی کیشنز اور ہم نے جھوک کے حوالے سے اپنا کام جاری رکھا ۔ اس دوران یہ ہوا کہ کتب فروشوں نے دلنور صاحب کا بہت سرمایہ دبا لیا ،ان کا ادارہ دیوالیہ ہو گیا۔ مالی مشکلات نے انہیں سخت پریشان کر دیا ، دوسری طرف ادارہ جھوک بھی حکومتی اعتاب کی وجہ سے سخت مشکلات سے گزر رہا تھا ، پھر ہم دونوں غمزدہ بھائی اکٹھے ہو گئے اور غم کا علاج غم سے کرنے کافیصلہ کیا ۔ ہم نے جھوک اخبار اور سرائیکی مطبوعات کی ملکر اشاعت کی ۔ ہمارے ادارے کی جو خوبیاں ہیں وہ سب کی سب دلنور صاحب کی وجہ سے ہیں اور جو خامیاں ہیں وہ میری طرف سے ہیں ، میں سمجھتا ہوں سئیں دلنور نور پوری ایک شخص نہیں ایک ادارے کا نام تھا ، انہوں نے سرائیکی زبان و ادب کی جو خدمت کی وہ سرائیکی قوم کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ۔ سئیں دلنور نور پوری جیسے لوگ روز روز نہیں بلکہ صدیوں میںپیدا ہوتے ہیں ، سئیں دلنور نور پور صاحب ایک درویش اور فقیر منش شاعر تھے، اُن کی عام شاعری میں بھی معارفت کا رنگ جھلکتا ہے، چند لائنیں دیکھئے متاں کہیں صورت وچ مل پووے ایہوں خیال جو آئے ودے پِندے ہیں کدی ایں دَر تے کدی اوں دَر تے ہر دَر کھڑکائے، ودے پِندے ہیں کہیں خیر چا پئی کشکول دے وچ کہیں جھنڑک الائے ، ودے پِندے ہیں دلنور پِنن کوئی پیشہ نیئں تیڈے عشق پنائے ودے پِندے ہیں