یہ کوئی امبانی ہیں، بھارت کے سب سے امیر شخص اور دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک۔ خیر ہمیں ان کی امارت سے کیا لینا دینا، امیر ہو گا تو اپنے گھر میں ہوگا۔ اس وقت ہمارا جھگڑا وہ بھی نہیں ہے کہ ؎ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق اس لیے کہ ہم تو اس کا مذاق اڑانا چاہتے ہیں۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے، پتا نہیں بیٹے کی نہ ہو مگر اصل بات یہ ہے کہ اس شادی پر اس نے بے پناہ دولت خرچ کی ہے۔ کس چیز پر خرچ کی ہوگی۔ کہتے ہیں شادی کا دعوت نامہ ہی بھارتی کرنسی میں تین لاکھ کا پڑتا ہے یعنی ہمارے کوئی پانچ لاکھ۔ چلئے، یہ بھی ہوتا ہے، میں اس پرغلیظ امراء (Filthy Rich) کی پھبتی نہیں کسنا چاہتا۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ہمارا اپنا میڈیا بھی اس طمطراق کے تذکرے بڑی دلچسپی سے کر رہا ہے۔ بتا رہا ہے کہ وہاں ممبئی فلم انڈسٹری کی کیا کیا نامور شخصیات موجود تھیں۔ سب ناچ گا بھی رہے تھے۔ کیا ان سب کو اس شادی کی اتنی ہی خوشی تھی۔ سنا ہے کہ یہ لوگ ان تقریبات میں مفت میں نہیں جاتے۔ ہم آپ کہیں بلائے جائیں تو کوئی تحفے تحائف لے کر جاتے ہیں۔ مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ جو نامور شخصیات ہیں، یہ ایسی تقریبات میںشرکت کے پیسے لیتے ہیں۔ ان شخصیات کو آج کی زبان میں سلیبرٹی کہا جاتا ہے۔ مجھے تو ٹھیک طرح سے ان کے نام نہیں آتے۔ ان سب کو آپ اس شادی میں ناچتا، گاتا، ہلا گلا کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی انہیں فیس ادا کی جاتی ہے۔ یہ نہ سوچئے یہ ان کا کمینہ پن ہے کہ وہ پیسے لیتے ہیں۔ نہیں، یہ ان کا پیشہ ہے۔ ہمارے بچپن میں شادی بیاہ کی تقریبات میں بھانڈ مراثی آیا کرتے تھے۔ دیہاتوں میں تو آج کل بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہ ان کا پیشہ تھا اور کمائی کا ذریعہ بھی۔ اس کام کا ان کو معاوضہ ملتا تھا۔ انگریزوں نے برصغیر میں مختلف پیشوں کی جو تقسیم کی تھی، اس میں انہیں ارباب نشاط میں شامل کیا تھا۔ کسی دل جلے نے شاعروں، ادیبوں کو بھی اس ذیل میں شامل کردیا تو ہمارے اہل علم تلملا اٹھے اور خوب خوب لتے لیے۔ ارباب نشاط کا یہ کلچر ہمارے اوپری طبقے میں سرایت کر گیا ہے۔ یہ کوئی برصغیر کا معاملہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں زرپرست معاشرے کا یہی چلن ہے اور یہی اس طبقے کا شوق ہے۔ ہم جب فرانسیسی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک چیز سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ فلاں مادام ان دنوں سوسائٹی کی جان تھی۔ تمام بااثر افراد ان کی محفلوں میں حاضری بھرتے تھے اور وہاں سے ترقی کی منزلیں طے کرتے تھے۔ اس معاشرے میں عروج پانے کی یہ ایک سیڑھی تھی کہ آپ کسی ’’مادام‘‘ کی ’’سوسائٹی‘‘ کا حصہ ہوں۔ روسو، والٹیر، بالزاک، فلابیر کے تذکروں میں باربار اس کلاس سے واسطہ پڑتا ہے۔ علمی طبقے کا خیال ہے کہ یہی سوسائٹی کا لفظ دراصل سول سوسائٹی کے تصور کی بنیاد بنا۔ پتا نہیں، میں نے بھی کتابوں میں پڑھا تھا۔ اس طرح ایک اور تصور ہے جو آج کل بھی مروج ہے، وہ ہے پارٹی۔ جب ہمارے اوپری طبقے میں پارٹی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے ساتھ بہت سے لوازمات فوراً ذہن میں آ جاتے ہیں۔ کوئی موقع محل ہو، بس پارٹی جما لی جاتی ہے۔ نیو ایئر کو تو چھوڑیئے، ہمارے ہاں بسنت کا چلن ہوا تو اوپری طبقے اور کارپوریٹ کلچر والوں نے اسے بھی پارٹی میں بدل دیا۔ رات رات بھر محفلیں جمتیں۔ اس کلچر کے خلاف ہمارے بڑوں نے ہمیں سمجھا رکھا ہے کہ یہ بورژوا کا چلن ہے۔ یہ بورژوا کیا ہوتا ہے، مارکسی معنوں میں تو یہ ایک طبقہ ہے، مگر فرانس کی اس سوسائٹی کے پس منظر میں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا یہ ایک کلچر کا نام ہے، جس کی میں وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے اس سرمایہ دارانہ نظام سے یہی کدہے کہ یہ اس کلچر کو فروغ دیتا ہے جو انسانیت کے لیے سم قاتل ہے۔ ہماری ایلیٹ کلاس اسی زہر کی عادی ہوتی جا رہی ہے۔ عام آدمی بھی جو اپنے سے اوپر کی کلاس کی طرف دیکھنے کا عادی ہے، اس سے متاثر ہوتا نظر آتا ہے۔ ہمارے ادبی مرشد حسن عسکری نے ہمیں سمجھایا تھا کہ اسلام میں بورژوا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سے ان کی مراد یہی کلچر ہے۔ ہمارے ہاں، میرے خیال میں، ان کی نظر میں فقیری اور درویشی معاشرے کی اعلیٰ ترین اقدار ہیں۔ یہ اقدار معاشرے سے رخصت ہوتی جا رہی ہیں تو یہ اسی کلچر کی چمک جمک کا نتیجہ ہے۔ کل ہی میں کسی مبلغ دین سے ایک واقعہ سن رہا تھا کہ جب فتوحات بڑھیں اور مدینہ میں دولت آنے لگی تو مسلمانوں کو خیال آیا کہ ان کے امیرالمومنینؓ روکھی سوکھی کھاتے ہیں، موٹا کپڑا پہنتے ہیں، زمین پر سوتے ہیں، کیوں نا ان کے حضور درخواست کی جائے کہ وہ خود پر اتنا ظلم نہ کریں، اپنے لائف سٹائل میں کچھ تبدیلی لے کر آئیں۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ موجود تھے مگر کسی کی ہمت نے ہوتی تھی کہ ان سے جا کر یہ بات کہے۔ آخر ان کی بیٹی حضرت حفصہؓ جو امہات المومنین ؓمیں سے تھیں، کو قائل کیا گیا وہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی ہمراہی میں امت کی یہ درخواست لے کر امیرالمومنین کے پاس پہنچیں اور ان سے یہ گزارش کی۔ کہتے ہیں، حضرت عمرؓ کے کان سرخ ہو گئے، انہوں نے بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تمہیں کس نے بھیجا ہے۔ اس کے بعد جو گفتگو کی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جب تک مسلمان اپنے فقیرانہ لائف سٹائل پر قائم رہے، وہ دنیا پر چھائے رہے۔ میں یہاں اس بات کا تذکرہ اس لیے نہیں کر رہا کہ آپ اس طریق زندگی کو اپنائیں، میں تو صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ دولت کے پجاریوں نے انسانوں کو کیا بنا دیا ہے۔ ان سے ان کی زندگی کی سادگی بھی چھین لی ہے۔ اوپر سلیبرٹی کا ایک لفظ استعمال ہوا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اب اس میں کھلاڑیوں کا ایک طبقہ بھی شامل ہوتا جارہا ہے۔ امبانی والی شادی میں وہ بھی موجود تھے۔ سلیبرٹی جو ہوئے۔ ایک امبانی کی ہی بات نہیں، گزشتہ دنوں ہمارے بھی ایک بطل جلیل کا ذکر ہوا ہے۔ انیل مسرت آج کل وزیراعظم پاکستان کے مشیر وغیرہ ہیں۔ وہ ان کے پرانے دوست ہیں، کہا جاتا ہے انہوں نے برطانیہ میں دھوم مچا رکھی ہے۔ ان کا شمار برطانیہ کے 500 امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو کوئی چار ملین پائونڈ خرچ کئے۔ جب ان سے پوچھا گیا، آپ نے اتنا خرچہ کیوں کیا۔ جواب دیا پہلی شادی تھی، سوچا ارمان پورے کرلیں، بس دوست خوش ہو گئے۔ اب یہ صاحب پاکستان میں غریبوں کے لیے سستے گھر بنانے میں حکومت پاکستان کی مدد کریں گے۔ خدا ہمارا ناصر و مدد گار ہو اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ دنیا میں ایسے ہی ایک فیصد بنام 99 فیصد کی تحریک نہیں چل رہی۔ میں نے عرض کیا، میں نے یہ بحث مارکس کے تناظر میں نہیں چھیڑی۔بقول اپنے ادبی مرشدوں کے فلوبیر وغیرہ کے پس منظر میں اٹھا لی ہے۔ سوسائٹی، پارٹی، ایلیٹ۔ انسان کدھر جا رہا ہے۔ امیروں کی اس دولت کے پیچھے غریبوں کا خون ہی نہیں ہوتا، انسانیت کے منہ کی کالک بھی ہوتی ہے۔ انسان ذلیل ہے خدایا مدد فرما۔ اور کیا کہہ سکتا ہوں۔