لاڑکانہ، حیدرآباد، دادو (بیورو ز رپورٹ، نامہ نگار ) چیف جسٹس پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے بار اور بنچ ایک جسم کے حصے ہیں جسے الگ نہیں کرسکتا، جوڈیشل سسٹم کا کام صرف عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے ، ملک میں بڑے مسائل ہیں ان پر چپ نہیں رہ سکتا،ہسپتالوں کا دورہ قیمتی جانیں بچانے کے لیے کرتا ہوں۔ لاڑکانہ ہائی کورٹ بار کی جانب سے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ازخود نوٹس کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے ، یقین دلاتا ہوں ہر ازخود نوٹس کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں، اور انسانی بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہوسکتا ہے آنے والے وقت میں ہم پانی بحران سے نمٹ نہ سکیں جس کے لیے اگر مجھے جھولی پھیلا نا پڑے تو یہ کام بھی کروں گا۔ مستقبل میں سندھ کے لوگوں کو صحت کے خدشات ہیں، ماحول کا تحفظ اور صاف پانی کی فراہمی ناگزیر ہے ۔ صاف پانی سے متعلق میرے اقدامات جینے کے لیے ہیں۔ ہسپتالوں میں سہولیات نہیں جس کے باعث بچے مررہے ہیں اس کے خلاف ہمیں جنگ کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا جو لوگ آتے ہیں لوگوں کو مقروض کرکے جاتے ہیں اس ملک ملک کا ہر بچہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا قانون کی بالادستی لازمی ہے ، ہم ہسپتالوں، پانی، تعلیم اور دیگر اہم مسائل پر توجہ دے رہے ہیں ہم نے ناانصافی کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے جس کے لیے مجھے بار کے تعاون کی ضرورت ہے ، تعاون کے بغیر ہم نظام کو ٹھیک نہیں کرسکتے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو انصاف ملے تو بار کو بنچ سے تعاون کرنا پڑے گا۔ مجھے کسی بھی احتجاج کی کوئی پروا یا غرض نہیں۔ انہوں نے کہا آج عدلیہ پر جو بوجھ اکٹھا ہوا ہے اس میں کسی سیاسی جماعت کو نشانہ نہیں بنارہا، عدالت میں جتنی بھی درخواستیں آرہی ہیں وہ انتظامی ناکامی کی وجہ سے ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت پہنچنے پر جوڈیشل لاکپ میں قید ی انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی اور نعرے بازی کرتے رہے جس پر چیف جسٹس نے انہیں انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ علاوہ ازیں نے چانڈکا ٹیچنگ ہسپتال، شیخ زید وومن اور چلڈرن ہسپتال کا دورہ کیا ، گندگی اور صفائی کے ناقص انتظامات ، ایکسرے پلانٹ اور لیبارٹری کی خراب صورتحال پر پر برہمی کا اظہار ، مریضوں کی جانب سے ادویات نہ ملنے کی شکا یت کی گئی ۔چیف جسٹس نے کہا بھٹو کے شہر کا یہ حال تو دیگر شہروں کا کیا حال ہوگا۔ چیف جسٹس نے ہسپتال کے باہر درخت کے سائے میں کھڑے ہو کر سائلین کی شکایات بھی سنیں، متعدد شہریوں نے شکایات سنائیں، چیف جسٹس نے تمام افراد کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ چیف جسٹس پولیس ہیڈکوارٹرز بھی گئے جہاں انہوں نے خستہ حال میں کوارٹر زدیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا پولیس اہلکار بھی انسان ہیں ۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے استفسار کیا کوارٹرز کی مرمت کے لیے آپ کو کتنا بجٹ ملتا ہے جس پر ایس ایس پی نے کہا ہر تین ماہ بعد 2 لاکھ روپے ملتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے اس معاملے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ دریں اثنا چیف جسٹس نے منچھر جھیل اور مادھو نہر کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا منچھر جھیل کی بحالی کے لئے ساڑے چودہ ارب روپے خرچ کئے جانے تھے اگر مادھو اور راوت ڈسٹری سے چھ سو کیوسک پانی منچھر جھیل میں چھوڑنے کا تجربہ کامیاب ہوگیا تو یہ پیسے خرچ نہیں ہوں گے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ منچھر جھیل کو بحال کرنے کے لئے امیر ہانی مسلم کی کوششیں قابل تحسین ہیں، اگر کسی نے امیر ہانی مسلم کے کام میں رخنہ اندازی کی تو سخت نوٹس لوں گا۔ چیف جسٹس نے اپنی فیملی کے ہمرا درگاہ حضرت قلندر لال شہباز کا دورہ کیا، مزار پر حاضری دیکر پھولوں کی چادر چڑھائی ۔ حاضری کے بعد چیف جسٹس صحافیوں کے ساتھ گھل مل گئے اور صحافیوں نے سیلفیاں بھی بنائی۔ چیف جسٹس نے مزار پر ہی نماز ادا کی۔ مزار سے واپسی پر چیف جسٹس مظاہرین کو دیکھ کر گاڑی سے اتر آئے اور مطالبات سنے ۔