آپ اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن سچائی یہی ہے۔ کبھی جانوروں کی مختلف اقسام بارے یہ کلمات کہے جاتے تھے۔ جیسے، پانڈہ کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے، ٹائیگر کی خاص قسم ناپید ہو رہی ہے یا جانوروں کی قریبا ایک ملین انواع ناپید ہونے کو ہیںیا پھر جانوروں کی دیگر اور اقسام بارے بتایا جاتا تھا کہ آئندہ کچھ عرصے میں ان کو ہم کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ لیکن کیا اب انسان بھی اس فہرست میں شامل ہونے کو ہے۔ کہنے کو تو دنیا کی آبادی سات ارب ساٹھ کروڑ سے زائد ہے لیکن ساری بات انسانی رویوں کی ہے۔ جن کے مطابق ہم انسان کم ، درندے اور جانور زیادہ بن گئے ہیں۔ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا تھا۔سوچنے سمجھنے، اچھے اور برے کی تمیز کرنے والے، اور یہی خصوصیات تو ہمیں جانوروں سے مختلف بناتی ہیں۔ وگرنہ، انسان اور جانور میں اور کیا فرق ہے۔ مینار پاکستان گراونڈ میں خاتون کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا میرے لئے وہ افسوسناک ہونے کے ساتھ حیران کن بھی تھا کہ کیا واقعی انسانوں کے رویے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں؟ جو لڑکی کو اس گوشت کے ٹکڑے سے کچھ زیادہ نہیں سمجھتے جس سے لذت حاصل کرنا وہ اپنا فطری حق سمجھتے ہیں۔ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ ہ خاتون آخر کیوں ایسے مٹکتی ہوئی پارک میں گھوم رہی تھی۔ آخر کیوں اس نے اپنی آمد سے متعلق پہلے ہی اپنے چاہنے والوں کو بلاوا دیا۔ پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔ پھر ایک تو جیہ یہ پیش کی گئی کہ جب معلوم ہے چودہ اگست کو حالات ایسے نہیں ہوتے کہ پبلک مقامات پر جایا سکے۔ چونکہ اوباش نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر ہوتی ہے۔ جنہیں نکیل ڈالنا بس سے باہر ہے تو کیوں وہ ویڈیو بنانے باہر نکلی۔ عجب جنگل کا قانون ہے جہاں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اے صنف نازک اس دن تمھاری آزادی سلب ہے اس دن تم پر فلاں کام کی ممانعت ہے۔ اس دن تم باہر نہیں نکل سکتی ہوں۔ تسلیم کیا، ٹک ٹاکر خاتون کی غلطی کا پہلو بھی نمایاں ہے مگر یہ رویہ اسی یوم آزادی پر تو دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہر سال چودہ اگست کو خواتین اس بات کی پابند کر دی جا تی ہیں کہ قدم باہر نہیں نکالنااور عورتوں کو ایسے جاہل ہجوم کا سامنا تقریبا ہر تہوار پر کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ چاند رات ہی کیوں نا ہو۔ کوئی رہنمائی کرے کہ آخر انسانوں کی اس نسل نے یہ خود ساختہ اصول کب سے اور کیسے طے کر لئے کہ اکیلی لڑکی دیکھ کر یا تو سب اس پر ٹوٹ پڑیں گے، وگرنہ چھیڑ چھاڑ کا گھٹیا آپشن تو موجود ہوتا ہی ہے۔ کہیں دست درازی ہوئی۔ کوئی خواتین سے زبردستی کر گیا۔انسانوں کی شکل میں یہ قابل نفرت لوگ جو کسی کی عزت کا جنازہ نکال کر اپنی عزت کا جھنڈا گاڑتے ہیں۔ مجھے ایک بار ٹک ٹاک کے ان دیوانوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دسمبر کی شام اور ایک معروف جگہ پر فیملی کے ہمراہ موجود تھی۔ کچھ وقت لگا اس دیوانگی کو سمجھنے میں۔ اللہ بھلا کرے ساتھ آئے بچوں کا جنہوں نے کچھ رہنمائی کی۔ ایسا تھا جیسے اس دنیا میں موجود ہی نہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ ساتھ بیٹھا شخص کیا کر رہا ہے۔ جہاں تک نظر گئی بس یہ دیوانے ہی نظر آئے۔ اکٹریت نے ان ایپلیکیشنز کو روزگار کے طور پر ایکٹو کیا ہے۔ جس میں اوچھا پن، اخلاقیات سے گرے یا پھر کوئی مٹبت ٹیلنٹ دکھا کر مختلف کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ تسلیم شدہ بات ہے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ لیکن یہ بھی تو پکا روزگار نہیں ۔نہ جانے کب یہ سب بند ہو جائے۔ یہ تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اب سستی شہرت کے چکر میں محنت کے کام سے ویسے ہی جی چراتی ہے۔ پھر جس معاشرہ اور ملک میں ٹیکنالوجی کی ہر شکل بے لگام ہو۔ اصول ہوں نہ قوانین کی عمل داری۔ ان معاشروں میں ایسے ہی لوگوں کا ہجوم جا بجا نظر آتا ہے۔ اس بحث نے زور اب پکڑا وگرنہ یہ مسئلہ کہیں زیادہ پرانا ہے۔ متعدد آوازیں ہیں کہ جو بھی ایسی حرکت کا مرتکب ہو اسے پھانسی چڑھا دیا جائے۔ عوام کے جذبات ہیں جو کسی شکل یا مطالبہ کی صورت تو نکلیں گے۔ مگر کسی ایک کو لٹکانے سے کیا ہو گا؟ کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ خرابی کی وجہ فرد واحد نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہی ایک ڈگر پر چل نکلا ہے۔سارا قصور صرف ٹیکنالوجی کا نہیں اس کونٹینٹ کا بھی ہے جس میں پھیلائی جانے والی بے راہ روی کو نئے دور کے تقاضے سمجھ کر ہم قبول کرتے ہیں۔ جہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر ایسی غلیظ گفتگو گھروں تک پہنچائی جا رہی ہے جس میں رشتوں کا کوئی تقدس باقی نہیں رہتا۔ اور ڈرامے تو رشتوں کی پامالی میں کوئی ثانی ہی نہیں رکھتے۔حتی کہ ایک ہی گھر کے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر مختلف پراڈکٹ کے کمرشل بھی نہیں دیکھ سکتے۔ سرکس کا رنگ ماسٹر شیر جیسے خونخوار درندے کو کبھی سختی تو کبھی پیار کے ساتھ اپنے تابع کر سکتا ہے، ڈگڈگی بجانے والا ایک بندر کو ٹریننگ دے کر اپنے اشاروں پر چلا سکتا ہے۔ یہ لوگ جانوروں سے انسانوں جیسے عمل کروا سکتے ہیں پھر انسانوں کی شکل میں ان جانوروں کو واپس انسان کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ کسی کو اس کے لباس پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اورنہ ہی ایسے لوگوں کو اپنی باتوں سے مضبوط ہونے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ ایسے اعمال کی بیخ کنی لازم ہے وگرنہ نوشتہ دیوار ہے کہ انسان تو ہوں گے مگر اعمال درندوں کی طرح۔ جن سے پورا معاشرہ عدم تحفظ کا شکار رہے گا۔ ریاست کو قانون کی عمل داری کے لئے اب اپنا ہنٹر اٹھانا ہو گا۔