معزز قارئین!۔ کسی ریاست میں بادشاہت ہو ، فوجی آمریت یا جمہوریت ۔ رعایا ( جمہور) کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ریاست ِ پاکستان میں بھی جہاں کبھی فوجی آمریت اور کبھی جمہوریت کا دَور دورہ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اکثر اوقات کسی مغربی مفکر کے اِس مقولے کی ’’جگالی ‘‘ کِیا کرتے ہیں کہ ’’ بدترین جمہوریت بھی ، اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ لیکن اُنہوں نے جمہورؔ کو کبھی یہ نہیں بتایا کہ ’’ وہ کتنے برس تک بدترین جمہوریت ؔ کو برداشت کریںاور اُنہیں بہترین جمہوریت کتنے سال یا صدیوں بعد نصیب ہوگی؟۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان نے تو( اِسلامی شریعت کے دعویداروں کے پیدا کردہ ) دہشت گردوں کے ہاتھوں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سمیت75 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانیاں دِی ہیں ۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے پاک فوج کا دم غنیمت ہے ، جہاں تک دوسرے ریاستی ادارے ہیں اُن کی خدمات کو فراموش نہیں کِیا جاسکتا لیکن، جب تک ریاست ِ پاکستان ۔ ’’ایک پُر امن ریاست ‘‘ نہ بن جائے تو، دہشت گردی کے ہر سانحہ / المیہ پر ، متاثرین حکمرانوں کو بددُعائیں کیوں نہیں دیں گے؟۔ ساہیوال میں مبینہ ؔپولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے خلیل ، اُن کی اہلیہ نبیلہ ، بیٹی ، نعت ہائے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلیہ وَسلم سے خصوصی شغف رکھنے والی 13 سالہ اریبہ اور ڈرائیور ذیشان ؔ کے قتل پرسانحہ ساہیوالؔ پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اپنے اپنے انداز میں ناپسندیدگی کا اظہار کِیا ہے۔ برادرِ عزیز اشرف شریف نے اپنے 21 جنوری کے کالم کا آغاز یوں کِیا ہے کہ ’’ ایک چھوٹی سے کار میں ایک خاندان کے چھ ، سات دہشت گرد مٹھائی اور کپڑوں کے ہتھیار بھاگے جا رہے تھے ۔ "C.T.D" کے بہادر جوانوں نے اپنا ڈالا اُس ننھی منھی سی کار کے سامنے کھڑا کِیا کچھ شیر جوانوں نے گاڑی کے فرنٹ میں سائیڈ شیشوں پر اپنے جدید ہتھیاروں سے برسٹ مارا ۔ یہ ہتھیار سرکار نے اُنہیں عوام کا پیٹ کاٹ کر فراہم کئے ہیں ۔ آج اُنہوں نے اُن ہتھیاروں سے عوام کا پیٹ کاٹ دِیا۔ گولیاں چلتی رہیں ۔ڈرائیور ، خاندان کا سربراہ ، اُس کی بیوی ، 13 سالہ بیٹی مر گئے۔"C.T.D" نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی‘‘۔ دوسرے دو کالم نویسوں ، برادران اوریا مقبول جان اور نصرت جاوید کے اپنے اپنے کالم کا عنوان ہے "Licence to Kill" ۔دونوں صاحبان نے عوام اور خواص کو بتایا ہے کہ گویا ’’محکمہ انسداد ِ دہشت گردی‘‘ (Counter Terrorism Department) ۔"C.T.D" کو بے گناہ اِنسانوں کو قتل کرنے کا "Licence" ( سند ، اجارہ ، پروانہ ، تحریری اجازت نامہ ، کھلی چھٹی ) دے دِی گئی کہ وہ جسے چاہیں ، جب چاہیں اور جہاں چاہیں قتل کردیں۔ کہانیوں کے مطابق ۔ قدیم بادشاہوں کے دَور میں اُن کے بعض خدمت گاروں ، مصاحبوں اور چمچوں کو ’’سات خون معاف ‘‘ہوتے تھے ۔ اُن پر کسی بھی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاتا تھا البتہ بادشاہ کی طرف سے قتل ہونے والوں کے وُرثاء کو ، زرِ تلافی دے دِیا جاتا تھا۔ ہمارے یہاں بھی کئی برسوں سے رواج ہے کہ ’’ خود کُش حملوں اور دہشت گردی کے دوسرے واقعات کے بعد ہر مقتول کے وُرثاء کو پانچ لاکھ (Half Million) روپے زرِ تلافی کے طور پر دِیا جاتا ہے۔ میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے ایک بار کہا تھا کہ … خُود کُش حملے میں مر جانا ، اچھا لگتا ہے! ملین ہافؔ کا خواب سُہانا اچھا لگتا ہے! معزز قارئین !۔ 6/5 فروری 2015ء کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جنابِ عمران خان کا ایک بیان جاری ہُوا تھا ۔ جس میں موصوف نے کہا تھا کہ ’’ بدقسمتی یہ ہے کہ ’’ ملک میں جعلی جمہوؔریت اور جعلی آمرؔیت رہی ہے ، اگر کوئی اچھا "Dictator" ( آمر) ہی آ جاتا تو، مُلک ترقی کرسکتا تھا‘‘۔ مَیں نے "Good and Bad Dictators" کے عنوان سے اپنے 8 فروری 2015ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے شاگرد ’’ سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘‘ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل محمد ضیاء اُلحق کیا واقعی "Good Dictators" تھے کہ جن کی چھتر چھایا میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنان نے ’’ بُلھے لُٹّے؟‘‘۔بعض سیاستدانوں نے تو ہر فوجی ڈکٹیٹر کے گھٹنوں کو چھو کر یہی کہا کہ … اپنی جاں نذر کروں ، اپنی وفا پیش کروں! قوم کے مردِ مجاہد ؔ ، تُجھے کیا پیش کروں؟ …O… ’’مصّور پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے کسی مغربی مفکر کے حوالے سے کہا تھا کہ … جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں ! بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے؟ معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ تو، قائداعظمؒ کے پاکستان میں حقیقی ، اِسلامی اور فلاحی مملکت کے قیام کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن، قائداعظمؒ تو بہت جلد خالق حقیقی سے جا ملے تھے ۔ اُس کے بعد جمہورؔ کو ، آمریتؔ اور بدترین جمہوریتؔ ہی نصیب ہُوئی۔ مَیں قائداعظمؒ کے بعد ( فوری طور پر ) نافذ کی گئی جمہوریتؔ کی بات نہیں کروں گا ، البتہ ہمارے کئی ماہرینِ معاشیات نے بار بار جمہورؔ کو یہ یاد دِلایا تھا کہ ’’ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں 40 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے ، صدر آصف علی زرداری کے دَور میں اُن کی تعداد 50 فی صد ہوگئی تھی اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے دَور میں 60 فی صد ‘‘۔ اب مَیں کیا کروں ؟۔ مَیں نے تو، "B.A. Final" تک ہی ’’معاشیات‘‘ (Economics )پڑھی تھی۔ جناب عمران خان نے تو، 18 اگست 2018ء کو وزارتِ عظمیٰ سنبھالی ہے ۔ اب کتنے فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ؟۔ مجھے نہیں معلوم؟۔ فوجی عدالتیں 6 جنوری 2015ء کو پارلیمنٹ نے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین پاکستان میں 21 ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کرلی تھی۔ اِس سے قبل ’’ قومی وطن پارٹی ‘‘ کے سربراہ جناب آفتاب احمد خان شیر پائو نے فوجی عدالتوں کے قیام کو ’’ کڑوی گولی‘‘ قرار دِیا تھا ’’ نیشنل پارٹی پاکستان‘‘ کے سربراہ جناب حاصل بزنجو نے ’’ زہر کا گھونٹ‘‘ ۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے میاں رضا ربانی آبدیدہ ہوگئے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ میرا ووٹ میری پارٹی کی امانت تھی اور مَیں نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دِیا، مَیں آج اتنا شرمندہ ہُوں کہ پہلے کبھی نہیں ہُوا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ ’’آج6جنوری 2015ء کو ’’اعتزاز احسن مر گیا۔ اعتزاز احسن نے ( فوجی عدالتوںکی مدت ختم ہونے سے ) دو سال پہلے جان دے دِی‘‘۔ پھر کیا ہُوا معزز قارئین!۔ 6 جنوری 2017ء تک اور اُس کے بعد بھی فوجی عدالتیں دہشت گردوں کے خلاف فیصلے کرتی رہیں، جس کی وجہ سے دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر کافی حد تک قابو بھی پا لِیا گیا ہے اور اب فوجی عدالتوں کی توسیع کا مسئلہ ہے ۔ پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل "ISPR" میجر جنرل آصف غفور نے واضح کر دِیا ہے کہ ’’ فوجی عدالتیں قوم کی ضرور ت ہیں ‘‘۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سمیت کئی لیڈروں نے اِس مؤقف کی حمایت کی ہے لیکن ، جناب آصف زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمٹنیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) اور میاں شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) "Give and Take" کے انتظار میں ہیں۔ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام تو یہ چاہتے ہیں کہ ’’ قومی دولت لُوٹ کر بیرونی ملکوں میں لے جانے والے سیاستدانوں کے خلاف بھی مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں ‘‘۔ جہاں تک "Counter Terrorism Department" ۔(C.T.D) کا تعلق ہے اُسے تو، ’’ انسداد ِ دہشت گردی ‘‘کا "Counter" ہی سمجھا جانا چاہیے۔ معزز قارئین!۔کل مجھے پھر "Oxford English Urdu Dictionary"۔دیکھنا پڑی۔ ’’ دُکان وغیرہ میں گاہکوں کے سامنے لگے ہُوئے تھڑے ،لمبے چوڑے تختے، کو بھی تو"Counter"ہی کہتے ہیں ۔ساہیوال سانحہ کے ذمہ دار "C.T.D" کے ملزموں /مجرموں کو بھلا عام عدالتیں کیا سزا دے سکتی ہیں؟۔