اپنے ایک کالم ’نظام کی اصلاح کریں‘ میں میں نے کہا تھا کہ صرف سزاوں میں سختی مجرموں کو جنسی جرائم سے نہیں روک سکتے؛ اس سلسلے میں ہمیں مجرموں کو پکڑنے ، ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے اور انہیں سزا دینے کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہمارے نظام عدل میں بہت پیچیدہ سقم پائے جاتے ہیں،جس کی وجہ سے بعض اوقات عدم رپورٹنگ کی بنا پرمجرم کی یا تو گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکتی یا اگر اسے پکڑ بھی لیا جائے تو سز ا نہیں دی جاتی ۔ اس صورت حال میں جرائم پیشہ افراد میں قانون سے مستثنی ہونے کا گمان پیدا ہوگیا ہے۔ پچھلی حکومتوں کی اس معاملے میں عدم دلچسپی اور سست پیش رفت نے عوام میں بیزاری بھر دی تھی جس پر سیالکوٹ واقعہ آخری تنکاثابت ہوا۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان، جو پہلے ہی اس قانونی سقم کے حوالے سے حساسیت کا شکار تھے،نے عوام سے قانونی اصلاحات لانے کا وعدہ کیا۔قانونی بحث کے دوران، جس کا میں بھی حصہ رہا ، وزیر اعظم نے جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں سقم دور کرنے کی بنیاد رکھی ۔ جس کے تحت مجرموں کو سزا دینے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے تفتیش اور پیشی کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ مظلوم اور ان کے خاندان کو قانون تک رسائی، مشاورت اور معاوضہ دیے جانے جیسے عوامل کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان اہداف کو نظر میں رکھتے ہوئے ضروری تھا کہ ایک ایسا قانون لایا جائے جو سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابل عمل بھی ہو ،جو سرکاری رکاوٹوں اور الجھنوں کا باعث نہ بنے۔ کیا انسداد عصمت دری کا قانون ان اہداف پر پورا اترتا ہے؟ سب سے پہلے تو وزارت انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کا شکریہ جن کی حکمت عملی سے عصمت دری کی تعریف میں توسیع کی گئی تاکہ نئے قانون میں ایسی قانونی شقیں شامل کی جاسکیں جن کا پہلے احاطہ ممکن نہیں تھا۔ جیسے کہ ا گر کوئی عصمت دری کے عمل کو زبردستی روکنے میں ناکام ہوجائے تو اس کامطلب رضامندی نہیں ، اسی طرح عورت کے رحم کی جانچ کے بوسیدہ عمل کو ختم کیا گیا،اور خواجہ سرائوں کے ساتھ ہونے والی جبری جنسی زیادتی بھی عصمت دری کہلائے گی۔ پاکستان کے نظام عدل میں سزا دینے کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے۔جس کی بنیادی وجہ تفتیشی عمل میں خرابی اور میڈیکو لیگل پورٹنگ میں کمی ہے۔ نئے قانون میں اس سقم کو ختم کرنے کی غرض سے بھیانک جنسی جرائم کی تحقیق کے لیے ڈی پی او کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کی گنجائش رکھی گئی ہے جس میں ایک خاتون کا ہونا بھی لازم ہو گا۔ اسی طرح ڈی سی کے ماتحت خصوصی بحران سیل بنایا گیا ہے جس میں میڈیکل سپریٹنڈٹ میڈیکو لیگل رپورٹ اور ددسرے اہم شواہد کے جلد حصول کو یقینی بنائے گا۔ پراسکیوشن اور عدالتی کاروائی میں موجود سقم کو دور کرنے کے لیے مظلوم کو قانونی چارہ جوئی میں مدد کی خاطر پروسکیوٹر جنرل اور خصوصی پروسیکیوٹرزکو تعینات کیا جائے گا ۔ اسی طرح جنسی جرائم کی عدالتی کاروائی خصوصی عدالتوں میں چلائی جائے گی اور یہ کہ ہر کیس کی مدت تکمیل چار ماہ ہوگی۔ ماضی میں گواہوں کی حفاظت کے ناقص نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجرم مظلوم کو ان کے موئقف سے ہٹنے پر مجبور کر تے رہے ہیں تاکہ عدالتوں سے بری ہو سکیں۔اس قانونی نقص کو اس طرح حل کیا گیا ہے کہ اب گواہوں کو خاص حفاظت فراہم کی جائے گی اور ان کی شناخت کو مخفی رکھا جائے گا، ویڈیوکانفرنس کے ذریعے ان کے بیانات ریکارڈ کیے جائیںگے ۔ اس کے علاوہ ہر مظلوم کا پہلا بیان ویڈیو کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے گا جبکہ عدالتی سوال جواب کونسل کے ذریعے ہی کیے جائیں گے۔ ہم نے سیالکوٹ موٹر وے واقعے میں دیکھا کس طرح پولیس اپنے علاقے سے باہر ہونے والے جرم کے خلاف کاروائی کرنے پر تیار نہیں تھی۔نئے قانون کے مطابق اب پولیس کو جنسی جرائم کی واردات کے حوالے سے ملنے والی شکایت پر فوری عمل کرناہوگا اگرچہ واردات ان کے علاقے سے باہر پیش آئی ہو۔ نادرا کو بھی جنسی جرائم میں ملوث افراد کا رجسٹر رکھنے پر پابند کیا۔اس تمام کاوش کے باوجود یہ قانون میڈیا میں ہدف تنقید بنا یاگیا ۔ ایک اعتراض یہ تھا کہ آرڈیننس لانے کے بجائے پارلیمان میں بل لایا جاتا۔ میں اس بات سے متفق ہوںکہ آرڈ یننس لانامسئلے کا حل نہیں ۔ یقینا کسی بھی قانون کو پارلیمانی بحث کے بعد ہی وجود میں آنا چاہیے۔ لیکن انسدادعصمت دری کا آرڈیننس مخصوص حالات میں لایا گیا ہے۔بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے حوالے سے ضروری تھا کہ لوگوںکو ببانگ دہل بتایا جائے کہ حکومت اس جرم کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں کسی بھی قانون کو پارلیمان سے پاس کروانا انتہائی مشکل ہے، جبکہ اس قانون کو جلد نافذ کرنا ضروری تھا ۔ تیسرا یہ کہ آرڈیننس چند ماہ کے لیے بنایا جاتا ہے جس کے بعد اسے پارلیمان ہی میں بھیجا جاتا ہے۔ آرڈیننس تو صرف قانون کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ میں مانتا ہوں کہ آرڈیننس کو قانون کا متبادل لانے کی روش کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ مسئلہ قانون بنانے کا نہیںبلکہ اس پر عملدرآمد کا ہے۔یقینا کاغذی تحریر بن کر رہ جانے والے قوانین بے سود ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اس نئے قانون میں بھی کچھ خامیاں ہیں۔جیسا کہ کمیٹی برائے شکایات بنانے اور قانون کو نافذکرنے کے ضمن میں فیصلہ سازی کا اختیار حکومت کے بجائے وزراہ کو سونپ دیا گیا ہے۔ اس سے اجتماعی ذمہ داری کے تصورکو ، جسکی نشاندہی سپریم کورٹ نے بھی کی ہے، نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ قانون تفتیشی افسران ، میڈیکو لیگل افسران اور پرسیکیوٹرز کی ٹرینیگ کے حوالے سے خاموش ہے۔ عدالتوں کو جنسی جرائم سے نمٹنے کے حوالے سے کس قسم کی صلاحیتیں درکار ہونگی ، یہ معاملہ بھی چھیڑا نہیں گیا۔ دوسرا سقم جسے ختم کرناضروری ہے وہ خاتون تفیشی آفیسر اور جج کی تعیناتی کا ہے۔ اسی طرح قانون میں اس بات کوبھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ مظلوم کی مالی امداد کی ذمہ داری حکومت کی ہو۔ جنسی جرائم کی رجسٹری کے عمل کو بھی یقینی بنانا ہوگا ۔اور پولیس نادرا کو یہ معلومات فراہم کرنے کی پابند ہو۔ مجھے امید ہے کہ جب یہ بل پارلیمان میں پیش ہوگا تو ان امور پرغور کر کے قانون میں تبدیلی لائی جائے گی۔ لیکن ان تمام تبدیلیوں اور قانون سازی کے باوجود دنیا کا کوئی قانون عصمت دری کے واقعات کو رونما ہونے سے نہیں روک سکتا۔اس جرم کے انسداد کے لیے ہمیں لوگوں کی ذہن سازی کرنی ہو گی تاکہ مظلوم کو واردات کا ذمہ دار نہ ٹھیرایا جائے۔ حکومتیں صرف آگاہی ہی پیدا کر سکتی ہیں۔ لیکن اصل ذمہ داری پڑھے لکھے طبقے کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کے جنسی جرائم رپورٹ ہوں۔ا گریہ نہ ہوا تو اس قانون کی افادیت بھی ختم ہو جائے گی۔