چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اب بہت فعال ہو چکی ہے‘ اب سب ججوں کا احتساب ہو گا‘ انصاف میں تاخیر کی وجہ عدلیہ ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ تاثر زائل ہو گیا ہے کہ ہماری عدلیہ کسی سیاسی جماعت کی آلہ کارہے یا انتظامیہ کے ہاتھ کی چھڑی ہے۔ انہوں نے قانون کی بالادستی‘ محکوموں‘ بے کسوں اور ظلم کی چکی میں پستی انسانیت کی مدد کر کے نظام عدل کوافتخار بخشا ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انتظامیہ کی عدم توجہ‘ پولیس کی ناقص تفتیش سے عدلیہ پر کیسز کا بوجھ بڑھا ہے لیکن ماتحت عدلیہ میں کرپشن اور چہرے دیکھ کر فیصلے کرنے کے رواج نے بھی انصاف کا قتل کیا ہے۔ انصاف کی فراہمی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف کی فراہمی اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ تیسری نسل اپنے ابائو اجداد کے کیسز کے فیصلے وصول کرتی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے درست کہا ہے کہ ججز یومیہ 50ہزار روپے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن اس قدر کیسز نہیں سنتے۔ ماتحت عدالتوں میں بے تحاشا کیسز زیر التوا ہیں‘ لیکن کبھی مدعی نہیں آتا‘ کبھی گواہ‘ کبھی منشی‘ کبھی پولیس اور کبھی جج صاحب چھٹی پر ہوتے ہیں‘ جس کے باعث تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔ انصاف کے ناقص نظام کے باعث پیسے والا شخص جلد چھوٹ کر باہر چلا جاتا ہے جبکہ غریب شخص کی درخواست منوں مٹی اور ہزاروں فائلوں کے نیچے دب جاتی ہے۔ماتحت عدلیہ میں سپریم کورٹ کے اس آرڈر کہ 65 دنوں میں کیس نمٹایا جائے‘ اس کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے جلد انصاف کا احساس اس بات کی علامت ہے کہ وہ خود جلد انصاف کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں‘ ماتحت عدلیہ کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے۔ اگر ماتحت عدلیہ اور وکلا سائلین کے استحصال سے گریز کریں تو ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے۔