یہ لیجئے ہمارے سابق وفاقی وزیر ، ن لیگ کے سنٹر فارورڈ حنیف عباسی کی بھی لاہور ہائی کورٹ نے سزا معطل کردی۔۔۔ جولائی 2018ء کے الیکشن سے قبل حنیف عباسی کو اْن کی دورِ وزارت میں انسدادِ منشیات کی عدالت نے ایفیڈرین کیس میں عمرقید کی سزا سنائی تھی۔۔۔ عباسی صاحب کوئی نو ماہ جیل میں رہے۔ اوراب ان کے حامی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی تاکہ وہ راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں۔ ایک اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو انتقامی کارروائی قرار دینا بذاتِ خود کیا توہینِ عدالت کے زمرے میں آئے گا؟ اس کا فیصلہ تو اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج حضرات ہی کریں گے۔۔۔۔ مگر محترم حنیف عباسی کا نیب کے خلاف یہ کوئی پہلا فیصلہ نہیں۔۔ اس سے قبل ان کے قائد سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے۔۔۔ان کی صاحبزادی مریم نواز سمیت لمبی مدت کی سزائیں دی گئی تھیں۔۔۔ یہی نہیں، بلکہ ساری زندگی کے لیے سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی نے۔۔۔ ساری عمر کے لئے سیاست میں نہ حصہ لینے کا نا اہل بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو بھی شریف خاندان نے انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا تھا۔ اور ن لیگ کی قیادت کو یہ کہنے کا موقع بھی مل گیا تھا کہ اْن کے قائد کی گرفتاری کا مقصد تحریکِ انصاف کے لئے میدان کھلا چھوڑنا تھا۔ میاں صاحب نے کئی ماہ اڈیالہ کی سخت جیل کاٹی۔ اس دوران انہیں اپنی بیگم کی جدائی کے صدمے سے بھی گزرنا پڑا۔ اور پھر محترم ہمارے میاں نواز شریف کی بھی نہ صرف یہ کہ ضمانت منظور ہوئی۔۔۔ بلکہ ان دنوں اپنے بنائے گئے فائیو اسٹار اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ہمارے پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی نیب کے ہاتھوں پکڑے گئے۔۔۔مسلسل پیشیاں بھگتیں۔۔۔ مگر نہ صرف یہ کہ ضمانت پر رہائی پا چکے ہیں۔۔۔بلکہ ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد ان دنوں لندن میں پہلے ہی سے مبینہ طور پر مفرور محترم اسحاق ڈار اور اپنے بھتیجوں حسن ، حسین نواز کیساتھ لندن کے پرفضا موسم میں سڑکوں پرمٹر گشت کررہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف تو ان سب سے زیادہ خوش نصیب نکلے کہ بھری عدالت میں اپنے سینکڑوں حامیوں کے درمیان جب ان کا کیس زیر سماعت تھا۔۔۔ تو لاہور ہائی کورٹ سے اْن کی ضمانت کا پروانہ آگیا۔ میاں نوازشریف، حمزہ شہبازشریف، مریم نواز پر کروڑوں نہیں۔۔۔اربوں روپے کے سنگین مقدمات بنائے گئے تھے۔ نیب کے افسران کی ایک پوری فوج نے خود کروڑوں روپے سے رکھے ہوئے وکلاء کے ذریعے مہینوں کی محنتِ شاقہ کے بعدانہیں جیلوں کی کال کوٹھریوں میں پہنچایا تھا۔۔۔ مگر صرف مہینے دو میں ایک کے بعد دوسرے شریفوں اور ن لیگیوں کی رہائیاں ہو رہی ہیں۔اس نے نیب کی کارکردگی اور کار گزاری کوتو سوالیہ نشان بنا دیا ہے مگربصد احترام۔۔۔ ان اداروں کی جانب بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔۔۔ جو نیب کے فیصلوں کی توثیق کرتے رہے۔۔۔ ن لیگیوں کی ضمانتوں پہ رہائی کے بعد اب بہرحال ایک سوال یہ بھی اٹھے گا کہ "زرداری جو عدالتوں کے پھیرے لگارہے ہیں اور جن کے بارے میں سیاسی و صحافتی پنڈت یہ پیشن گوئی کر رہے تھے کہ انکا جیل جانا ٹھہر گیا ہے۔ صبح گئے یا شام گئے اگر انہیں بھی نیب کی عدالتوں سے وقتی طور پر سزائیں مل بھی گئیں۔۔۔ تو ان کی ضمانتوں پر رہائی میں بھی کوئی زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ نیب جو کبھی احتساب کمیشن ہوا کرتا تھا۔۔۔ اور جسے شریفوں اور زرداریوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف خوب خوب استعمال کیا تھا۔۔۔خیال یہی تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی کے بعد نہ صرف کرپشن کے مقدمات انصاف پر پورے اتریں گے۔۔۔ بلکہ کرپشن سے پاک سیاسی دور کا آغازبھی ہوگا۔ مگر حالیہ دنوں میں نیب کے خلاف ایک کے بعد دوسرے جوفیصلے آئے ہیں اْس میں اس پورے ادارے کی ساخت کو دائو پر لگا دیا ہے۔بلکہ عام زبان میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نیب ایک laughing stock بن چکا ہے۔۔۔ جہاں تک تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیر اعظم کا تعلق ہے تو اٹھتے بیٹھتے وہ یہ دعوے کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔۔۔ اور اس کیلئے خاص طور پر ان کا زورشریفوں اور زرداریوں پر ہوتا ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ان کی جماعت اور حکومت میں بیٹھے ہوئوں کی بھی پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس سے بڑھ کر سیاسی مذاق کیا ہوگا کہ خود حکمراں جماعت کے سیکرٹری جنرل محترم جہانگیر ترین تاعمر سیاست میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دئیے جاچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے مثالی صوبے کے پی کے سابقہ اور موجودہ وزرائے اعلیٰ بھی نیب کی عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔۔۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور پاکستانی عوام کی آخری امید تحریکِ انصاف کے قائدین کا کروڑوں، اربوں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے بعد کیااب بھی امید کی جاسکتی ہے کہ وطن عزیز میں مستقبل میں کرپشن ختم ہونے کی کوئی امید کی جاسکے۔۔۔ ؟ امید کی ایک آخری کرن ہماری اعلیٰ عدالتیں تھیں۔۔۔ خاص طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑے بڑے مگر مچھوں کے خلاف کارروائی کر کے۔۔۔اعلیٰ عدالتوں کی ساکھ بحال کی تھی۔۔۔ اور پھر خاص طور پر موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے منصب سنبھالنے کے بعد پاکستانی عوام کو یہ امید بن چلی تھی کہ قوم کا لوٹا ہوا خزانہ نہ صرف یہ کہ واپس آجائے گا بلکہ کرپٹ لٹیرے بھی انجام کو پہنچیں گے۔۔۔۔.میرے منہ میں خاک۔۔۔ کہیں یہ خواب ہی نہ رہ جائے۔ بصد احترام، ہمارے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ انصاف کا بول بالاکرنے کے لئے اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے پرویزمشرف کیس میں قبروں سے لاشوں کے ڈھانچے نکال کر ان کا ٹرائل تک کرنے کی دھمکی دی تھی۔ poor سابقہ فوجی ڈکٹیٹر اور کرپٹ حکمرانوں کی لاشیں کیا نکلتیں۔۔۔ یہاں تو جیلوں سے باعزت ،زندہ سلامت نکلنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ اس ساری صورتِ حال کا سب سے پریشان کن اور المناک پہلو یہ ہے کہ برسہا برس کے بعد پاکستانی عوام کو تحریک انصاف کی حکومت، اعلیٰ عدالتوں اور متعلقہ اداروں سے جو امید بن چلی تھی وہ بھی بتدریج دم توڑتی جارہی ہے۔ آج پاکستان کے عوام اپنے تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گذر رہے ہیں۔ مہنگائی، آسمان کو چھو رہی ہے۔ بیروزگاری کا جن لاکھوں کو نگل رہا ہے اور صاحب ِ دولت و ثروت اور اہلِ اقتدار اْسی ٹھاٹ باٹ سے عیش و عشرت کے شب و روز گزار رہے ہیں۔