یہ تو طلسم ہوش ربا ہے۔ ایک کے اندر سے دوسری پرت نکلتی آ رہی ہے۔ اس وقت سامنے ٹی وی کی سکرین پر کہانی چل رہی ہے۔ چلئے وزیر قانون کو تو اپنی رونمائی کرنی چاہیے تھی کہ عدالت عالیہ نے فیصلہ وزارت قانون کو بھیج دیاہے مگر شہزاد اکبر یہاں کیاکر رہے اور کیوں مقدمے کو مزید الجھا رہے ہیں۔ اس ملک میں بڑے بڑے مقدمے چلے ہیں۔ چند ایسے ہیں جنہیں اخبارات میں بڑی ڈرامائی اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک نواب کالا باغ کے قتل کا مقدمہ تھا۔ کہا جاتا تھا کہ انہیں ان کے بیٹے نے قتل کیا ہے کیوں کیا ہے‘ کیسے کیا ہے یہ الگ بات تھی۔ ایک پولیس کا مقدمہ تھا جسے استغاثہ کا مقدمہ کہہ لیجیے۔ ایک صفائی کے وکیل تھے اور ایک فریق درمیان میں کوئی اور تھا جس کے وکیل مشہور زمانہ قانون دان ایم انور تھے۔ ایم انور نے عدالت میں پورا سین کرئیٹ کر رکھا تھا۔ نواب کالا باغ کا ایک مجسمہ کھڑا کیا اس کی بنیان پر سوراخ‘ زخم کے مقام اور جانے کن کن باتوں پر نکات کھڑے کر دیے۔ ہم جیسے روز یہ سٹوری مزے لے لے کر پڑھتے تھے اور داد دیتے کہ دیکھیے کیسے استغاثہ کے مقدمے کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ پولیس اصل ملزم کو بچانا چاہتی ہو مگر ایم انور صاحب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں گے۔ کئی دن تک ایم انور پورے ملک کے میڈیا پر چھائے رہے اگر آج کے میڈیا کا زمانہ ہوتا تو یوں سمجھئے کہ انہوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ آخر میں وکیل صفائی آئے۔ غالباً چودھری نذیر احمد تھے۔ فوجداری کے بڑے غضب کے وکیل تھے۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے نسبتاً مختصر دلائل دیے۔ مفہوم یہ بنتا تھا کہ جو کچھ ایم انور نے کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ استغاثہ یا پولیس کا مقدمہ غلط ہے گویا جو مقدمہ سنا جا رہا ہے وہ مقدمہ ہی غلط ہے۔ اس لئے اس مقدمے میں تو کسی کو سزا ہو ہی نہیں سکتی۔ اچانک معلوم ہوا کہ سارا مقدمہ ہی زمین بوس ہو گیا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال اس وقت ہمارے ملک میں عدالتی نظام کا ہو رہا ہے۔ ارشد ملک کے خلاف ویڈیو اور جواب میں جج کے بیان کے بعد صورت حال یہ بن گئی ے کہ جتنا زور بھی یہ ثابت کرنے میں لگایا جا رہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے‘ اتنا ہی معاملہ بگڑتا جا رہا ہے۔ میں نے شہزاد اکبر کی موجودگی میں جو اعتراض کیا ہے‘ تو اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ اس سے تو مقدمہ اور بگڑ رہا ہے۔ آپ کو کیاپڑی ہے کہ جج کا دفاع کرتے پھریں اور وہ بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ نواز شریف مجرم ہیں۔ یہ دو دھاری تلوار ہے جو آپ کا سر بھی قلم کر دے گی اور قانون کی گردن بھی کاٹ دے گی۔ یہ منفرد مقدمہ ہے پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومت اپنا مقدمہ خود خراب کر رہی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ عدلیہ اپنی ساکھ کو باقی رکھنے اور بحال کرنے کے لئے اس موقع کو ضائع نہیں کرے گی۔ اس وقت کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس کی زد میں پورا نظام انصاف آ گیا ہے۔ یہ احتساب عدالت کا معاملہ ہے۔ مگر ساتھ ہی لوگوں کی یادداشت میں نارکوٹکس کا وہ شہرہ آفاق مقدمہ بھی جاگ اٹھا ہے جس میں راتوں رات حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی اور انہیں الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دے دیا گیا جب کہ اسی حوالے سے جن 9دوسری فارماسوٹیکل کمپنیوں کے خلاف مقدمات تھے وہ آج تک یا تو ویسے کے ویسی ہیں یا ان مقدمات میں ملزم چھوٹ گئے ہیں جب کہ بعض تو ایسے ہیں جن میں جو الزامات تھے وہ حنیف عباسی کے مقدمے سے کئی گنا سنگین تھے۔ نارکوٹکس کا مقدمہ اس لئے بھی اہم ہو گیا ہے کہ اس وقت پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو بھی منشیات کے ایک سنگین مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ ان کی اہلیہ نے رانا صاحب سے ملاقات کے بعد جو تفصیل بیان کی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ دال میں ضرور کالا ہے۔ منشیات اتنا نازک معاملہ ہے کہ پاکستان میں مختلف سفارت خانوں میں کوئی 43ممالک کے نمائندے اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ثابت کرنا کہ 15کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے‘ اتنا آسان نہیں ہے۔ ہم اپنی جگ ہنسائی تو کرا رہے ہیں‘ اپنے اداروں کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ یہ کالم اگر میں پوری سچائی سے لکھتا اور اپنے دل کی بات کرتا تو شاید برداشت کرنا مشکل ہو جاتا یہ مرا مقصد نہیں ہے۔ جج صاحب نے جو تفصیلات بتائی ہیں کہ وہ کس طرح نواز شریف کے ساتھیوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ اس میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ اس مقدمے کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کے ایک جج کر رہے تھے جو اس بنچ کے بھی رکن تھے جس نے نواز شریف کو نااہلی کی سزا سنائی تھی۔ اس وقت بھی شور اٹھا تھا کہ حضور ایسا نہ کیجیے‘ اس طرح تو آپ احتسابی عدالت پر دبائو ڈال رہے ہوں گے۔ اب اگر لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مانیٹرنگ کرنے والے نے کیسی مانیٹرنگ کی کہ اسے ان سب سرگرمیوں کی خبر تک نہ ہوئی۔ ظاہر ہے مانیٹرنگ کرنے والا جج کوئی خفیہ ایجنسی تو نہ تھا کہ ہر بات پر نظر رکھتا۔ مگر اب سوال تو اٹھ کھڑا ہوا کہ آپ کو پتا تک نہ چلا کہ جج صاحب کیا کرتے پھرتے تھے۔ اس لئے تو کہا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو ماتحت عدلیہ کو اپنا پابند نہیں بنانا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بھی یہی اعتراض ہوا تھا جس نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ آپ کا اختیارہو گا‘ مگر یہ کام آپ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دیں تو بہتر ہے‘ وگرنہ ملزم کو اپیل کا حق نہیں ملے گا اور یہ کہ سب سے بڑی سزا سنا کر یعنی منصب سے ہٹا کر آپ اسے ٹرائل کورٹ میں بھیج رہے ہو کہ قید وغیرہ کرنے کا معاملہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں بھی شرط لگاتے ہیں کہ اتنے ماہ میں فیصلہ آئے گا اور ہماری ایک معزز جج اس کی نگرانی کرے گا۔ قانون دانوں نے کہا یہ مناسب نہیں‘ یہ تو ماتحت عدالت کو پابند کرنے کی بات ہے۔ اب اصل مسئلہ بھی یہی پیدا ہوا ہے کس طرح کوئی جرأت کرے گا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا سزا ہوئی‘ معطل کر دی ہائی کورٹ نے۔ سپریم کورٹ نے ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈانٹ ڈپٹ کی کہ یہ سب تم نے کیا کیا ہے۔ بہرحال معطلی برقرار رکھی۔ ساتھ ہی دوسرا مقدمہ شروع ہو گیا۔ ایک میں سزا دوسرے میں بری۔ کیا فرق پڑتاہے۔ بری ہونے کا ‘ جیل تو جانا ہے۔ اب اعلیٰ عدلیہ کے خوف سے وکیل ہمت نہیں کر رہے کہ دوبارہ میرٹ کی بنیاد پر سزا معطلی کی درخواست دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں صحت کا سہارا لینا پڑا۔ اس سے پورے نظام عدل پر سوالیہ نشان پیدا ہو گئے۔ خدا کے لئے اس پر غور کیجیے۔ آج احتساب جج نے یہ کہا ہے کہ اس پر دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ نواز شریف کے حق میں فیصلہ دو‘ کل کلاں وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مجھ پر نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کا بھی دبائو تھا۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ سب کو ضد چھوڑ دینا چاہیے‘ اڑی نہیں کرنا چاہیے اور ملک میں جو خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں ‘ اسے دور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ احتساب عدلیہ‘ نارکوٹک کورٹ اور پورا عدالتی نظام اگر اس طرح خطرے میں پڑ گیا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ آپ نواز شریف کو نہ چھوڑیے۔ مگر اس پر تو غور کیجیے کہ ہمارے نظام عدلت پر کتنا دبائو ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج اپنی نوکری سے گئے۔ یقیناان کا قصور ہو گا کہ انہوں نے بھری محفل میں دل کی بات کر دی‘ مگر وہ جو کہتے ہیں صرف تقریروں میں نہیں‘ اپنے فیصلوں میں بھی‘ اس پر ضرور غور ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے نظام عدل کو بچانا ہے۔ اس کے لئے جو بھی قیمت دینا پڑے اس سے اجتناب نہیں کرنا چاہیے۔ ابھی تو اور بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمیں انا کی مچان سے نیچے اتر کر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وگرنہ یہ وہ درندہ نہیں جو مچان پر نہیں جھپٹ سکتا۔ ہم مچان پر بھی محفوظ نہیں ہیں۔