لاہور(انور حسین سمرائ) نیب لاہور نے وزیر محنت و افرادی قوت پنجاب انصر مجید نیازی کوپنجاب ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسی ٹیویشن (پیسی) میں کرپشن ،اختیارات کے ناجائز استعمال اور تبادلوں و تقریوں میں مبینہ کرپشن کے الزامات پر طلب کر لیا ہے ۔ روزنامہ 92کی تحقیقات کے مطابق اختیارات کے ناجائز استعمال، تبادلوں اور فنڈز میں مبینہ کرپشن میں موصوف کے قریبی ساتھیوں نے مرکزی کردارادا کیا۔ نیب ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال، ریجنل ڈائیریکٹوریٹ سے منتھلی لینے ، افسران کو تبادلوں کی دھمکیاں دے کر رقم بٹورنے اور اہم ریکوری کی پوسٹوں پر من پسند جونیئر افسران تعینات کرکے حصہ لینے کے الزامات پر محکمہ سے تمام ریکارڈ طلب کیاچکا ہے ۔ انصر مجید تحریک انصاف کی ٹکٹ پرسرگودھاسے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ فرائض کی انجام دہی کے لئے پنجاب حکومت نے انہیں نیو منسٹر بلاک میں سویٹ نمبر 204 الاٹ کیا اورسات اہلکاربطور سپورٹنگ سٹاف تعینات کئے تاہم وزیر نے دفتر کی بجائے اپنا کیمپ آفس پیسی کے ہیڈ کوارٹرز میں قائم کیا۔یہ دفتر تین کمروں اور ایک کمیٹی روم پر مشتمل ہے جبکہ قانون کے تحت صوبائی وزیر اپنا کیمپ آفس قائم نہیں کرسکتا۔وزیر کے ایک ساتھی نے ان کے منشی کو ماڈل ٹائون میں 6-Dکی اینکسی 40ہزار ماہانہ کرائے پر لے کر دی اور ایک کار نمبری 448ذاتی استعمال کے لئے دی۔ ان اہلکاروں نے ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریکوری اور لیبر ڈائریکٹر کے تبادلوں کا ریٹ 2سے 3لاکھ مقر رکیا جس کی ڈیل ماڈل ٹائون والے گھر یا پیسی کے دفتر میں دفتری اوقات کے بعد کی جاتی تھی۔ محکمہ محنت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا اس مافیا نے وزیر موصوف کے نام پر 100سے زائد تبادلے و تقرریاں کرائیں۔ پیسی کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا وزیر کے دفتر کا روزانہ کا خرچہ 10سے 12ہزار تھا جس کا انتظام ان کا ایک ساتھی کرتا اور اس کے جعلی بلز بنا کر ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمین سے وصول کرلیتا تھا۔ وزیر کے ساتھیوں نے انصر مجید کے صوابدیدی فنڈز سے 30لاکھ بھی خورد برد کئے ۔ ایس اینڈ جی اے ڈی کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا سرکاری دفترمیں وزیر کے پرائیویٹ سیکرٹری نے دو لیبررہنماؤں کو بطور چیئرمین شکایات سیل لیبر تعینات کررکھاہے جبکہ ماڈل ٹائون والے گھر میں خواتین کو بلانے کی شکایات بھی ہیں۔ پیسی کے ایک دوسرے اہلکار نے بتایا صوبہ بھر میں ادارے کے 21ریکوری ڈائریکٹو ریٹ ہیں جن کو رجسٹرڈ صنعتوں اور اداروں سے سالانہ 15ارب کی کنٹری بیوشن اکٹھی کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے جو سیکیورڈ ورکزاور ان کی فیملیز کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔محکمہ محنت و افرادی قوت کے پاس تین محکمے ہیں جن میں کمشنر پیسی، ڈائریکٹر جنرل لیبر اور سیکرٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ شامل ہیں۔رابطے پر انصر مجید کے قریبی ساتھی نے بتایا کسی نے شرارت کرکے وزیر صاحب کی ساکھ خراب کرنے کے لئے نیب میں درخواست دی ، نیب انکوائری میں شامل ہونگے ،انصر مجیدامیر آدمی ہیں اور دفتر میں چائے کے علاوہ کوئی خرچہ سرکاری فنڈز سے نہیں کیا جاتا، تبادلوں میں وزیر اور ان کے سٹاف کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں کی جاتی ، وزیر اور گورننگ باڈی کا صوابدیدی فنڈ30لاکھ تھا جس کو وزیر نے کم کرکے 5لاکھ کردیا،ہم سب اپنی بے گناہی نیب میں ثابت کریں گے ۔ایک اور ساتھی نے بتایا میرے خلاف محکمہ انسداد رشوت ستانی میں انکوائریز چل رہی ہیں، کرپشن الزامات پر اپنا دفاع کریں گے ، انہوں نے اپنی جائیداد پر بات کرنے سے انکار کیا۔نیب کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا صوبائی وزیر کو چھان بین کے بعد بلایا گیا ۔