گرمی ٔتماشہ کے خوگر اپنی عادت کو پوری قوم میں منتقل کرنے کی ضد کر رہے ہیں۔ چاند کھیلن کو مانگ رہے تھے کہ حالات کے ڈھلتے سورج کی زد میں آ گئے۔ سندھ‘ پنجاب میں ذرا بڑے اور روایتی تماشہ گروں نے اتنے دلفریب اور پر فریب لباس پہنے ہوئے ہیں جن کی قیمت اور افادیت کے بارے میں سادہ عوام کبھی بھی نہیں جان سکیں گے۔ خاندانی وراثت میں سیاست اور محکوم عوام بھی ورثہ خاص قرار پائے ہر جگہ اور ہر معاشرے میں ایسی بدبختی کے آثار بہرحال موجود رہتے ہیں۔ یورپ میں ایسا نظر نہیں آتا ‘ اسلام نے تو بہت واضح اور درست انداز میں حکمرانی کا تصور عملی طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن پھر ملکیت نے سر اٹھایا اور قبائلی عصبیت نے دھاوا بولا اور صدیاں اس آسیب کے سحر میں بالجبر گرفتار ہیں۔ ظالم تو خیر وہ لوگ ہوتے ہی ہیں جو پرائے مال پر پرائی جان پر اور پرائی عزت پر اپنے شیطانی شوق کی مشق کرتے ہیں۔ اور ظالموں کے میّا بابا وہ ہوتے ہیں جو اپنی نالائق ہڈ حرام اور فرعون صفت اولاد کو قوم کی قبر کھودنے پر مامور کرتے ہیں۔ دھوکہ‘ جھوٹ ‘ غرور اور بدزبانی یہ چار عناصر بہت ضروری ہیں کسی بھی حسرت زدہ اور احساس کمتری کے مارے تختۂ دار کے لیے، تاکہ وہ سب کو ملا کر اور بہلا کر‘ آنکھیں دکھا کر اور بک بک کر کے خاموش کر دے‘ عوام تو مقہور ہوتے ہی ہیں۔ حواری بھی وقت حاضری خالی کھوپڑی لیے آنکھیں موند لیتے ہیں۔ احساس کمتری کا بیمار کہتا ہے کہ دوپہر کا سورج سیاہ ہوتا ہے تو بے چارے درباری کہتے ہیں کہ ع ہوتا ہے سائیں ہوتا ہے پنجاب کا بادشاہی نظام کہتا ہے کہ دشمن کے آنسو خشک نہ ہونے پائیں۔ تو قصیدہ ہر مصرع ثانی میں خبر دیتے ہیں ع روتا ہے سائیں روتا ہے یہ سب چوپٹ راجہ کے شاگرد ہیں اس لیے نگری کو اندھیرے میں دھکیلنا ان کی ذہنی مجبوری ہے۔ مخالفین پر ہر دور میں نئی طرز کی دھونس جماتے ہیں اور ایسے اثر انگیز بلکہ فتنہ انگیز جملے اچھالتے ہیں کہ پورا ماحول سلگ جاتا ہے۔ایک دور اقتدار میں فرمایا کہ اس مخالف کا پیٹ پھاڑ کر دولت برآمد کروں گا‘ جلال زیادہ بڑھا تو گویا ہوئے کہ سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔ پھر نشہ اترا تو لندن پلان کے لیے کرائے کی حواری بغل بچہ جماعتوں کے نیم پختہ لیڈروں سمیت دیار فرنگ میں میل کے لیے پہنچے۔ خانہ زاد دانش ماروں نے تاریخ کا لفظ چرا کر پیش کیا کہ اسے میثاق جمہوریت کا نام دیجیے۔ نواب شاہی بھی بڑے گھاگ تھے ۔ طبعاً وہ چکنے گھڑے ہیں۔ انہوں نے چند دنوں بعد آنکھیں دکھائیں اور کہا کہ یہ میثاق تھا کوئی قرآنی حکم یا حدیث کی ہدایت تو نہیں تھی۔ پھر شروع میں لڑائی‘ نئے بیانات عوام کے نام پر رونے کا سوانگ‘ رونا اپنی چھنی ہوئی کرسی تھا۔ پنجابی کی کہاوت ہے ع رووے یاراں تو ناں لے لے کے بھراواں تھا بھائیوں کا تو نام ہے رونا تو کسی دلدار کی یاد ہے۔ روز کوئی پرانے اخبار پڑھے تو ایک الفت لیلوی داستان جتنی شماتت کی کہانی مل جائے گی۔ اب پکڑ دھکڑ ہے۔ قصہ یہ ہے کہ قوم‘ ملک سلطنت کے نام پر جو روپیہ قرض کی مد میں بیرونی دنیا سے اینٹھا ہے۔ وہ کہاں گیا؟ جواب ملتا ہے کہ ہم نے سب آشیاں بندی میں لگایا۔ اورنج ریل پیل کر دی۔ کچھ حساب کے ماہر خفیہ خفیہ جمع تفریق کرتے رہے اور انہوں نے وہ سب حساب احتساب والوں کو دیدیا۔ چند ماہ پہلے نواب شاہی کمپنی کی طلبہ ٹیم اور صاحبزادے چلا چلا کر ہاتھ ہلا ہلا کر کوستے تھے کہ میاں تم جیل میں جائو گے۔ اب بھائی میاں اور چھٹن میاں تازہ فضا کو ترس گئے تو کراچی تا ڈیرہ اسماعیل خان حرکت میں ہیں۔ مارے خوف کے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں۔ اخبار والے معاصر قلم نویس بتا رہے ہیں کہ ہمہ میخانہ مدہوش ہے۔ کسی کا بھائی‘ کسی کا بیٹا‘ کسی کا بھتیجا اور کسی کا لگا سگا سب ہی بہتی گنگا میں کارستانیاں کر رہے تھے۔ پاکستان کو گالیاں دینے والے ‘ کرائے پر فروخت ہوتے ہیں۔ پاکستان کے ڈیمز کو بم سے اڑانے کی دھمکی دینے والے ہمارے دشمنوں سے ٹکے کھرے کرتے ہیں اورکم بخت تو یہ کہتا تھا کہ مجھے پاکستان کے نام سے گھن آتی ہے۔ کبھی کرائے پر بولتا ہے کہ تقسیم ہند بہت بڑی غلطی تھی۔ وہ بھی اب جمنا داسی ہے۔ چوروں کو مور بنانے پر کوشاں رہتا ہے۔ نواب شاہیوں اور بھائیوں کو اکٹھا کرتا پھرتا ہے کہ مل کر کرپشن کا چھان بنائو پھر مجھے بھی کہیں زیر قبا چھپا لینا۔ خدایا اس ملک پر رحم فرما کہ جب بھی کسی اصلاحی اقدام کے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں تو چور‘ ڈاکو اپنے نسب اور کسب کے تحفظ کے لیے شیرو شکر ہو جاتے ہیں اور پھر عوام کا درد ان کے جگر میں اٹھتا ہے ؎ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اعلان ہو رہا ہے کہ سب قومی جماعتیں جمہوریت کی تیمارداری کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ٹکریاں جو کسی کے ٹکڑوں پر گزر بسر کرتی ہیں، وہ بھی جمہوریت کی بس پر سوار آمرانہ نظروں سے اکثریت والوں کو گھور رہی ہیں۔ بہت پرامید ہیں کہ ان کو اندازہ ہے ‘ کیسا اندازہ؟ بس یہی نا کہ ہم ایک دھن مان کی ٹم ٹم پر سوار ہیں۔ ایسا دھن مان جو ہر شے‘ بروقت ‘ ہر جگہ خرید سکتا ہے اور بڑے سیانے پھر جو کائیاں کہلاتے ہیں وہ بھی اپنی قابلیت ‘ صلاحیت ‘ اختیار کی پونجی ان کی دہشت اوردھنواری کی نذر کرتے ہیں۔ پرانی روایت ہے کہ بڑے خان مجرم ہونے کے باوجود نجانے کس طرح دندناتے پھرتے ہیں۔ لوگ معاذ اللہ ثم معاذاللہ بہت غلط سوچنے پر مجبور ہوئے کہ شاید غریب اور امیر کے لیے فطرت کی تعزیریں مختلف ہیں اور انہیں شاید دنیا میں انصاف و مساوات کبھی بھی نصیب نہ ہو۔ وہ غریب بے کس یہ بھی سوچتے ہیں کہ غریب اور امیر کے لیے شاید دستور حیات بھی مختلف ہے۔ اور ان دونوں کے تفریق کے خانے مختلف ہیں اور آئین زندگی میں غریب مقہور ہے مجبور ہے اور اس کے لیے دستور زندگی بے نور ہے۔ اب سب بھول گئے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کا سہارا زرداری اپنے منصب صدارت کی آڑ میں چھپاتا تھا۔ مخالف لیڈر کالا کوٹ پہن کر وطن کے درد میں لوٹ پوٹ ہوئے تھے۔ سیف الرحمان نے قومی زرمبادلہ سے کروڑوں خرچ کئے تھے کہ زرداری کو تاحیات خانہ جرم میں رکھوا دیں گے۔ ماڈل ٹائون کے مقتولوں کی حمایت میں شور ہوا‘ قاتلوں کے خلاف ابتدائی قانونی کارروائی کا مطالبہ ہوا۔ اسلام آباد میں مقتولوں کے حامی سراپا احتجاج بنے تھے۔ ایک لیڈر نے دوسرے لیڈر کو پکارا‘ وہ جو کل ان کی زبان شکایت سے مجرم بیان ہوتا تھا اب ان کا مسیحا تھا۔ کبھی وہ مسیحا تو وہ مریض اور کبھی یہ مریض تو وہ مسیحا۔ بیماری دونوں کی ایک ہی ہے اور وہ بھوک ہے۔ دونوں بھوکے عزم تازہ سے اٹھے ہیں کہ ہم قوم کو بھوکا ہی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم خود نیت سے ہی بھوکے ہیں۔ اب سب ماہرین زرپرستی ایک درد میں مبتلا ہیں اور ایک دوسرے کے مسیحا ہیں۔ قوم کا مسیحا کہیں بادلوں کی اوٹ میں ہے اور قوم کثیر الامراض ہے لیکن حق نے تو غالب ہی آنا ہے۔