معزز قارئین!۔ مَیں 1973ء سے کئی سال تک قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر اور پھر اپنے گھر میں بیٹھ کر کسی نہ کسی نیوز چینل پر وزیر / مشیر خزانہ کی بجٹ تقریر سننے کا تجربہ ہے۔ 11 جون 2019ء کو مَیں نے اپنے گھر میں بیٹھ کر خوبصورت نام والے جواں سال اور خوبرو وزیر مملکت برائے ریونیو جناب حمّاد اظہر کی بجٹ تقریر سُنی تو میرے تصّور میں ماضی کے کسی نہ کسی وزیر/ مشیر خزانہ کا چہرہ اور خدّوخال‘‘ آگئے ۔ پھر صِرف حکومتی پارٹی اور اُس کے اتحادیوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی میں بحث و تمحیص بھی ۔ 28 جون کو بجٹ کثرت رائے سے منظور بھی ہوگیا۔ پرانے دَور میں بجٹ تقریر کو ’’ اعداد و شمار کی شاعری ‘‘کہا جاتا تھا لیکن، اب نہیں ؟۔ یکم جون 1991ء کو میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور سینیٹر سرتاج عزیز وزیر خزانہ ، مجھے لاہور سے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے اسلام آباد مدّعو کِیا گیا تھا ۔4 جون کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ ہندوستان کے نامور شاعر اور نامہ نگار ، مہا کوی ؔکالی داس کو ہندوستان کا شیکسپیئر ؔکہا جاتا ہے اور ’’ہیر وارث شاہ ‘‘کے مصنف سیّد وارث شاہ کو پنجابی کا شیکسپیئر ؔ ۔کالی داس نے وِشنو دیوتا کے اوتار ’’بھگوان رام‘‘ کے خاندان کے بارے میں ’’رگھو وَنش ‘‘کے نام سے منظوم داستان لکھی اور اُس کے دیباچے میں لکھا کہ ’’ رگھو وَنش‘‘ بہت عظیم ہے اور مَیں ایک معمولی شاعر ، مَیں اِس وَنش ( خاندان) کی داستان لکھنے بیٹھا ہُوں ۔ مجھے یوں معلوم ہوتا کہ مَیں سُوت کے کچے دھاگے میں موتی پرونے جا رہا ہُوں ‘‘۔ سیّد وارث شاہ نے ، ہیر اور رانجھا کی کہانی لکھی تو، سیّد وارث شاہ کے پیر صاحب مولانا غلام محی اُلدّی قصوری نے بھی یہی کہا تھا کہ ’’ وارث شاہ! ۔ تُم نے مُونجی کی رسی میںموتی پرو دئیے ہیں ۔ تُم نے تو ہیر رانجھا کے عشق مجازی کی بنیاد پر عشق حقیقی کی عمارت کھڑی کردِی ہے ‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے جس ہُنر مندی سے ، وفاقی بجٹ کو خوبصورت تتلیوں ، جگنوئوں اور پتنگوں کی شاعری میں پیش کِیا ہے اِس پر اُنہیں دورِ حاضر کا مہا کویؔ ( ملک اُلشعرائ) یا دورِ حاضر کا شیکسپیئر قرار دِیا جاسکتا ہے ‘‘ ۔ مَیں وزیر مملکت برائے ریونیو جناب حمّاد اظہرکو اِس طرح کے القابات اور خطابات سے نوازانے سے قاصر ہُوں ۔ مجھے تو ، اُن کی بجٹ تقریر سُن کر اکبر ؔالہ آبادی کے یہ دو شعر یاد آگئے…… تھی کیک کی فِکر ،سو روٹی بھی گئی! چاہی تھی بڑی ، سو چھوٹی بھی گئی! … O … واعظ کی نصیحتیں ، نہ مانیں، آخر! پتلون کی تاک میں ، لنگوٹی بھی گئی! … O … میرا اپنا بھی جی چاہتا ہے کہ، مَیں بجٹ کی تعریف و توصیف کروں ۔ وہ اِس لئے کہ سابق حکمرانوں کے دَور کی طرح موجودہ دَور کے عوام دوست بجٹ کے نفاذ کے بعد ’’ عوام / غریب ، غُربا‘‘ میں ’’ تصوف‘‘ (Sufi-ism) کو فروغ ملے گا؟۔ جب چینی ، خشک دودھ ،پنیر، گھی، تیل، جوس اور دوسرے مشروبات ، بیکری مصنوعات ہر قسم کا گوشت ، مچھلی مختلف قسم کے پھل مہنگے داموں ملیں گے تو لوگ ( خاص طور پر عوام) قوت خرید نہ ہونے کے باعث ، ان سب ’’ ماکولات و مشروبات‘‘ کو کھا / پی نہیں سکیں گے تو اُن کا رُجحان و میلان اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف مزید بڑھے گا؟۔ ایک فارسی ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ خوردن برائے زِیستن و ذکر کردن است ‘‘ (یعنی۔کھانا، زندہ رہنے اور عبادت کرنے کے لئے ہے) بعض بزرگ تو، یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ کم کھانے ، کم بولنے اور کم سونے والا شخص اللہ تعالیٰ کا ولیؔ ہوتا ہے ۔ جب کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں مزید بڑھیں گی تو، ظاہر ہے کہ لوگ بہت کم کھائیں گے۔ کم کھانے سے کمزور ہوں گے ۔ کمزوری کی وجہ سے کم بولیں گے تو، انہیں نیند بھی کم آئے گی تو ، کیا پھر ایسے لوگوں کو ،گھر بیٹھے بٹھائے ’’ ولایت‘‘ نہیں مِل جائے گی؟۔ چشتیہ سلسلے کے ولی اور پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج ؒ فرماتے ہیں کہ … شکّر ، کھنڈ، نوات، گُڑ ، ماکھیوں ، ماجھا دُدّھ! سبّھے وَستوں، مِٹھیاں ، ربّ نہ پجّن ، تُدّھ! …O… ’’(یعنی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ )شکر، کھانڈ، مِصری، گُڑ، شہد اور بھینس کا دودھ ، سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن، اے میرے ربّ! یہ سب چیزیں تو، مجھے تجھ تک نہیں پہنچا سکتیں‘‘۔معزز قارئین!۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان ’’ قائد ملّت‘‘ کہلاتے تھے ، اُن کے بعد خواجہ ناظم اُلدّین وزیراعظم منتخب ہُوئے تو آٹاؔایک روپیہ سیر کے حساب سے فروخت ہونے لگا۔ لوگ احتجاج کرنے لگے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے خواجہ صاحب نے کہا کہ ’’ حیرت ہے!۔ لوگ چار روپے فی سیر تمباکو خرید کر تو، پی لیتے ہیں لیکن، ایک روپیہ سیر آٹا خرید کر نہیں کھا سکتے؟‘‘۔ اِس پر عوام نے خواجہ صاحب کو ’’ قائدِ قِلّت‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب کے آخری دَور میں مہنگائی بڑھی تو، چینی تین روپے فی سیر فروخت ہونے لگی ۔ اِس پر عوام نے مہنگائی کے ذمہ دار وفاقی وزیر نواب عبدالغفور ہوتی کو قرار دیتے ہُوئے اُن کے خلاف چینیؔ چور کے نعرے لگانا شروع ہوگئے ۔ اُس کے بعد کسی بھی وزیر خزانہ یا وزیر تجارت کے خلاف چینیؔ چور کے نعرے نہیں لگائے گئے۔ شاید اِس لئے کہ کہیں پاک ، چین دوستی کے مخالفین پاکستان کے مخلص دوست چین کو کو گمراہ نہ کردیں؟۔ ایسے لوگوں کے بارے میں بابا فرید شکر گنج ؒنے کہا تھا کہ … روٹی، میری کاٹھ کی، لاوَن میری بُھکّھ! جناں کھاہدی چوپڑی، گھنے سَہن گے دُکھ! …O… یعنی۔ ’’ میری روٹی، لکڑی کی ہے اور بھوک ہی میرا سالن ہے ۔ جو لوگ چپڑی روٹی کھاتے ہیں وہ (آخرت میں ) بڑے دُکھ برداشت کریں گے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ نئے مالی سال کی بجٹ تقریر سُن کر اور پڑھ کر مجھے عُمر میں مجھ سے 6 سال بڑے گجرات (موضع بھدر) کے ریٹائرڈ ایس ۔ ایس ۔ پی ۔ (میرے اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری کے تایا ) چودھری غُلام حیدر یاد آرہے ہیں ۔ (مرحوم) کلامِ اقبالؒ (اردو اور فارسی ) کے حافظ تھے اور ’’چودھری غُلام حیدر اقبالؔ ‘‘ کے نام سے مشہور تھے ، کہا کرتے تھے کہ ’’ ہر دَور میں ہمارے بجٹ کو عالمی اداروں کے محکوم حکمرانوں کی ہدایت پر اسلام آباد میں بیٹھ کر ’’ ڈبل روٹی کھانے والے‘‘ ۔ (ارکانِ افسر شاہی )ہی بجٹ تیار کرتے ہیں۔ اُنہیں عِلم نہیں ہوتا کہ دیہات میں کس مپرسی کی زندگی بسر کرنے والے کاشتکاروں اور بے زمین لوگوں اور شہروں کی کچی بستیوں میں سِسک سِسک کرمرنے والے محنت کشوں کے مسائل کیا ہیں؟۔ آج اگر کسی وقت 17 ہزار 5 سو ماہوار آمدن یا غُربت کی لکِیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے ’’روکھی سوکھی روٹی ‘‘ کھانے والے لوگوں نے مفلوک الحال لوگوں نے اِسلام آباد پر قبضہ کرنے اور ’’اشرافیہ کا بجٹ‘‘ بنانے کا خود فیصلہ کرلیا تو؟ ۔ لیکن، مَیں اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا کیا کروں؟ ۔ وہ تو، وزیراعظم عمران خان کے دَور کے بجٹ 2019ء ۔2020ء کو ’’عوام دوست بجٹ ‘‘ قرار دینے کا ٹھیکا لے چکے ہیں ؟۔اُن کی نظم کے چار بند پیش خدمت ہیں … اِس میں نہیں کلام، بجٹ ہے عوام دوست! P.M ہے نیک نام، بجٹ ہے عوام دوست! اُس کو میرا سلام، بجٹ ہے عوام دوست! مُرغانِ زیرِ دام ہے ، بجٹ عوام دوست! …O… اب عام ہوگی رسمِ مسِیحائی ، دیکھنا! کٹ کر گِرے گی ، گردنِ مہنگائی دیکھنا! شمشِیرِ بے نیام ، بجٹ ہے عوام دوست! مُرغانِ زیرِ دام ہے ، بجٹ عوام دوست! …O… محمودؔ اور ایازؔ ، مساوات کے امین! دونوں بجا رہے ہیں ، امن ، شانتی کی بِین! کیا خوب ہے نظام ؟ بجٹ ہے عوام دوست! مُرغانِ زیرِ دام ہے ، بجٹ عوام دوست! …O… دِن رات سوچتا ہے ، ہماری بھلائی کو! جب چاہیں گے، وہ آئے گا، حاجت روائی کو! انکل ہمارا ، سامؔ ، بجٹ ہے عوام دوست! مرغانِ زیرِ دام ، بجٹ ہے عوام دوست!