خبروں کے مطابق ۔ ’’ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف سارے مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیع کردِی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو روکنی بنچ نے آصف زرداری کی ضمانتوں کی 7 مختلف درخواستوں پر سماعت کی ۔ عدالت 5 ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت کر رہی تھی تاہم 15 مئی کو ، آصف زرداری کی طرف سے ’’ ضمانت قبل از گرفتاری‘‘ کی مزید دو درخواستیں پیش کی گئیں‘‘۔ ’’بلاول انگاروں پر؟‘‘ معزز قارئین!۔ عدالت میں پیشی کے بعد ، آصف زرداری صاحب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے حکومت کے خلاف ’’ عید کے بعد ‘‘ پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں پر تحریک چلانے کا اعلان کِیا لیکن ، یہ نہیں بتایا کہ وہ اور اُن کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے قائدین اور کارکنان ’’نمازِ عید ‘‘ کی ادائیگی کے فوراً بعد یا کچھ دِن بعد حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے؟۔ جنابِ زرداری نے یہ بھی اعلان کِیا کہ ’’ حکومت کے خلاف تحریک کے دَوران شہید بی بی ( یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو) کا بیٹا بلاولؔ انگاروں پر چل کر جائے گا‘‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنابِ زرداری اِس طرح کا بیان دیتے کہ’’ شہید بی بی کا اور میرا بیٹا بلاولؔ انگاروں پر چل کر جائے گا‘‘۔ ’’ سنسکرت، ہندی اور اردو‘‘ میں ، آگ کے دہکتے ہُوئے ٹکڑوں کو ’’ انگارے‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اِس سلسلے میں اُستاد شاعر ’’پہلوان سخن‘‘ جنابِ امام بخش ناسخؔ سیفی کا ایک شعر قابل غور ہے ۔ اُنہوں نے اپنی محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … کِس قدر ،ہے تیز ظالم ، آتش رنگ ِحنا؟ سنگ ِپا لگتے ہی بس ، تلوئوں سے ، انگارا ؔ ہُوا؟ …O… حضرت امیرؔ مینائی کا اپنا انداز تھا / ہے ۔ فرمایا… لعلِ لب سے ، بڑھ کہ انگاراؔ ،ہُوئے ہیں، ہاتھ پائوں! کیا رچی ہے، اے پری پَیکر ، حِنا برسات کی؟ …O… حضرت اسیرلکھنوؔی نے اشرافیہ ؔکے کسی رُکن کو دیکھ کر کہا تھا کہ … مُنہ سے کبھی نہیں ، وہ لگاتے شراب کو! انگاروں ؔپر لُٹاتے ہیں ، کیا کیا ، کباب ؔکو؟ معزز قارئین!۔ تقریباً 30 سالہ بلاول زرداری بھٹو ابھی ’’ نوخیز سیاستدانوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں ۔ابھی تو اُن کی شادی بھی نہیں ہُوئی۔ اِس لحاظ سے اگر وہ ، جناب ِقمر اُلزمان کائرہ جیسے ’’ باذوق گلوکار‘‘ کی مدد سے متذکرہ بالا اشعار کا مطلب و مفہوم سمجھ لیں تو، فائدے میں رہیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا واقعی فرزند ِآصف علی زرداری اپنے بابا سائیں ، اپنی پھوپھی صاحبہ فریال تالپور اور خُود اپنے خلاف مقدمات کی واپسی کے لئے ( حکومت پر دبائو ڈال کر ) انگاروں پر چلنے پر آمادہ ہو جائیں گے ؟ ۔ کیا اُنہوں نے انگاروں پر چلنے کی "Net Practice" یا ( علم موسیقی کی اصطلاح میں ) ریاضؔ بھی کرلِیا ہے یا نہیں؟۔ قیام پاکستان کے بعد ، مختلف ادوار میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے ، مختلف حکومتوں کے خلاف سڑکوں پر آ کر کسی بھی پارٹی کے لیڈر نے ’’ انگاروں ؔپر چل کر اور عوام کا دِل موہ کر ان کواپنے ساتھ ملا کر کسی حکومت کو گرایا ہے؟۔ مَیں اِس وقت صِرف جنابِ آصف زرداری کے ’’روحانی والد ‘‘جناب ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی مرحومہ اہلیۂ محترمہ کی بات کروں گا ۔ جہاں تک جناب آصف زرداری کا تعلق ہے اُنہوں نے تو، خُود کبھی کسی بھی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں انگاروں پر چلنے کا مظاہرہ نہیں کِیا اور بلاول بھٹو زرداری کے دادا حضور ؔ حاکم علی زرداری مرحوم نے بھی نہیں ؟ ۔ معزز قارئین!۔ 26 مارچ 2019ء کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ آصفؔ زرداری، بلاولؔ پر قُربان ہو جائیں!‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں آصف زرداری صاحب کو ’’ مفت مشورہ‘‘ دِیا تھا کہ ’’ کہانی اور فلم کے مطابق ’’ ہندوستان کے پہلے مغل شہنشاہ ظہیر اُلدّین بابرؔ کا بڑا بیٹا، شہزادہ نصیر اُلدین ہمایوںؔ جب بہت سخت بیمار تھا تو حُکماء اور اِطبّا کے مشورے سے شہنشاہ نے شہزادہ ہمایوں کے پلنگ کے گرد چکر کاٹتے اور آسمان کی طرف دیکھتے ہُوئے دُعا کی تھی کہ ’’ یااللہ!۔ میری جان لے لیں لیکن ، میرے بیٹے ہمایوں کی جان بخش دیں!‘‘۔ دُعا قبول ہوگئی تھی ، شہنشاہ بابر انتقال کر گئے اور نصیر اُلدّین ہمایوں نے شہنشاہ کی حیثیت سے ہندوستان پر دوبار حکومت کی تھی ۔ مَیں نے اپنے کالم میں ، صدر جنرل ضیاء اُلحق کی مثال دِی تھی کہ ’’ جنہوں نے میاں نواز شریف کو اپنا بیٹا بنا لِیا تھا اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اُن کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے دُعا کی تھی کہ ’’ خُدا کرے کہ میری عُمر بھی نواز شریف کو لگ جائے!‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وہ دُعا قبول کرلی تھی اور صدر جنرل ضیاء اُلحق 17 اگست 1988ء کو سانحہ بہاولپور میں جاں بحق ہوگئے تھے ‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ ماشاء اللہ!۔ میرے پانچ بیٹے ہیں ، مَیں تو اپنے ہر بیٹے کی زندگی کے لئے اِس طرح کی دُعا مانگنے کو تیار ہُوں کیا ہی اچھا ہو کہ آصف علی زرداری اپنے اکلوتے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پر قُربان ہو جائیں، اور اُسے سیاست میں پھلنے پھولنے کا موقع دیں؟‘‘۔ ’’اگنی پرکشا!‘‘ قدیم ہندوستان میں ملزموں کو ’’ اگنی پرکشا‘‘ (Ordeal By Fire)’’ بھڑکتی ہُوئی آگ کے انگاروں سے ننگے پائوں گزر کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی تھی‘‘۔ ہندو دیو مالا کے مطابق ’’ قدیم ایودھیا کے راج کنور ( ولی عہد ) اور وِشنو دیوتا کے اوتار ’’ بھگوان رام‘‘ ، اپنی سوتیلی والدہ مہارانی کیکئی ؔکی فرمائش اور اپنے پِتا جی ،مہاراجا دشرتھ کے وعدے کے مطابق ، چودہ سال کے لئے اپنی پتنی (اہلیہ ) سِیتاجی ؔ اور چھوٹے سوتیلے بھائی لکشمن کو ساتھ لے کر جنگلوں میں چلے گئے تھے ۔ جلا وطنی کے دَوران قدیم لنکا ؔکا راجا راون ، سِیتا جی کو اغوا کر کے لے گیا تھا جہاں سِیتا جی نے کئی سال اُن کی قید یا میزبانی میں ایک ’’ باغ‘‘ میں گزارے تھے ۔ شری رام جی راجا راون ؔکو شکست دے کر اور سِیتا جی کو رہا کرا کے اپنے ساتھ ’’اُڑن کھٹولے ‘‘ پر بٹھا کر ایودھیا لے آئے تھے اور مہاراجا بن گئے ‘‘۔ مہاراجا رام ہر رات بھیس بدل کر اپنی جنتا ( رعایا) کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے ، ایک دِن اُنہوں نے ایک دھوبی کو اپنی بیوی سے جھگڑتے ہُوئے سُنا کہ ’’ مَیں مہاراجا رام نہیں کہ ، جنہوں نے سِیتا جی کو معاف کردِیا ۔ تم مجھے بتائو ! کہ ، تم کبھی کبھی رات کو کہاں جاتی ہو؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ مہاراجا رام نے پنڈتوں اور پرہتوں کے مشورے پر مہارانی سِیتا کو آگ کے انگاروں پر چلنے کا حکم دِیا۔ انگاروں پر چلنے سے مہارانی کے پیر نہیں جلے ۔وہ بے گناہ ثابت ہُوئیں لیکن، اُنہوں نے ’’دھرتی ماں‘‘ (مادرِ زمین ) سے درخواست (دُعا ) کی اور کہا کہ ۔ ’’ اے ماتا! ۔ مجھے اپنی گود میں لے لیں ۔ زمین پھٹ گئی اور مہارانی سِیتا اُس میں سما گئی تھیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، بھٹی راؔجپوت تھے اور اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی، پیدائشی راجپوت تھیں۔ قدیم ہندوستان میں ’’ اگنی پرکشا، کا رواج تھا ۔ آصف زرداری بلوچ ہیں اور پیدائشی طور پر بلاول بھی بلوچ (زرداری) ۔ پھر آصف زرداری خُود کو ، اپنی ہمشیرہ ، بیٹے اور اپنے ساتھیوں کو معصوم ثابت کرنے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے سے ’’ اگنی پرکشا ‘‘ کیوں لے رہے ہیں ؟ ’’انگاروں پر لوٹنا؟‘‘ معزز قارئین!۔ جب بھی کوئی شخص یا اشخاص ، دوسرے شخص یا اشخاص سے ’’ حسد ، جلن ، کینہ یا بد خواہی کے امراض میں مبتلا ہو تو اُس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ایک ضرب اُلمِثل ہے ’’ انگاروں پر لوٹنا‘‘۔ انگریزی میں کہتے ہیں ۔ "To Be On Thorns; To Be Agitated or Troubled; To Burn With Rage, Envy or Jealousy"۔ خدا نہ کرے کہ ’’ آصف علی زرداری صاحب اِس کیفیت میں مبتلا ہوں؟ لیکن ،میرا انہیں پھر مفت مشورہ ہے کہ ’’ وہ بلاول بھٹو کو ایک کامیاب سیاستدان بنتے دیکھنے کے لئے خود انگاروں پر چلنے کا شوق پورا کرلیں!‘‘۔ زرداری جی !۔ آپ تو بہت زیادہ پنجابی جانتے ہیں ۔ شوق دا تے کوئی مُل اِی نئیں ہوندا؟۔