انتہا پسندی کے مراکز مدارس ہیں یا جدید تعلیمی ادارے؟ کیا ہم روایتی طرز فکر سے بلند ہو کر اس سوال پر غور کر سکتے ہیں یا ہم نے طے کر لیا ہے کہ یہ روبکار ہم نے صرف دینی مدارس کو بھیجنی ہے اور جدید تعلیمی اداروں کے پریشان کن معاملات سے آنکھیں بند کیے رہنا ہے؟ کچھ وقت گزرتا ہے اور لوگ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ماضی کی ایک یاد سمجھ کر بھلانا چاہتے ہیں تو ایک نیا حادثہ ہو جاتا ہے۔ چند روز پہلے سوات ایک بار پھر خبروں میں تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم دائروں کے سفر میں ہیں۔ کچھ سال گزرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے لوٹ کر وہیں آ گئے جہاں سے چلے تھے۔ایسے میں لازم ہے کہ ہم اس بنیادی سوال پر ساری معروضیت سے غور کریں کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے حقیقی مراکز کہاں ہیں۔ انتہا پسندی کا تعلق وضع قطع سے نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ مذہبی حلیے والا شخص ہی انتہا پسند ہو۔مکمل مغربی حلیے اور تہذیب میں ڈھلا شخص بھی انتہا درجے کا انتہا پسند ہو سکتا ہے۔انتہا پسندی صرف اہل مذہب کا خاصا نہیں، ایک سیکولر انسان بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے۔ ہمارا عمومی فہم مگر اس بند گلی میں آ کر پھنسا پڑا ہے کہ انتہا پسندی اہل مذہب کے اوصاف میں سے ہے۔ یہ ایک نقص فہم ہے جس پر ہمارا ایک طبقہ پوری انتہا پسندی سے قائم ہے۔ انتہا پسندی کیا ہے؟ یہ اصل میں اس رویے کا نام ہے جس میں آپ کسی انسانی رائے کو حرف آخر قرار دیتے ہوئے کسی بھی دوسری رائے میں صحت کے امکان کو رد کر دیتے ہیں۔ اس کا الٹ وہ رویہ ہے جو امام شافعیؒ سے منسوب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی رائے کو درست سمجھتا ہوں مگر اس میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرتا ہوں اور میں دوسروں کی رائے کو غلط سمجھتا ہوں لیکن اس میں صحت کے امکان کو رد نہیں کرتا۔ جب اختلافی آراء کو اس پیرائے میں دیکھا جائے تو پھر اختلاف آداب کے سانچے میں ڈھل کر باعث رحمت بن جاتا ہے اور جب اس بنیادی اصول سے بے نیاز ہو جائے تو پھر انتہا پسندی کہلاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت انتہا پسندی کے آسیب میں ہے۔ ایسے میں اہل مذہب یا اہل مدرسہ کے ساتھ انتہا پسندی کو منسلک کر دینا بذات خود ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے۔معلوم نہیں یہ فکری عصبیت ہے، یک رخا پن ہے یا نفرت اور عصبیت ہے لیکن معاملہ جو بھی ہو، اس کا توازن اور اعتدال کی دنیا میں کوئی مقام ہے کہ علم کی دنیا میں۔ یہ رویہ ناقص اور نا معتبر ہے۔ ہم سب اسی سماج کا حصہ ہیں۔ اہل مذہب کی انتہا پسندی ہم نے دیکھ لی اور بھگت چکے مگر جو سماج کی عمومی انتہا پسندی ہے اور با لخصوص جس نے جدید اذہان کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اس کی سنگینی بھی کچھ کم نہیں۔ فیس بک پر ہمارے ساتھ اہل مدرسہ بھی ہیں اور جدید تعلیمی اداروں کے لوگ بھی۔ سماجی میل ملاقات بھی ہر دو گرہوں سے ہوتی ہے۔ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ جس انتہا پسندی نے جدید تعلیمی اداروں کو گرفت میں لے رکھا ہے اس کی نوعیت کہیں زیادہ سنگین ہے۔ یہ انتہا پسندی مذہبی بیانیے میں ہو یا کسی اور شکل میں، ہر دو صورتوں میں جدید تعلیمی اداروں اس کی نوعیت زیادہ سنگین ہے۔ اگر ہم اسے مذہبی پیرائے میں دیکھیں تو اس کے انتہائی شدید مظاہر ہمیں جدید تعلیمی اداروں میں ملتے ہیں اور اگر ہم اسے سماجی، ثقافتی، سیاسی پیرائے میں دیکھیں تب بھی جدید تعلیمی ادارے اس کی گرفت میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ جدید تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی کی نوعیت زیادہ سنگین اور ہمہ جہت ہے۔یہ مذہبی بھی ہے اور اس کے مظاہر ہم جا بجا دیکھ چکے۔ یہ ثقافتی بھی ہے اور اس نے ثقافت جیسی حسین چیز کوجنگ و جدل کا میدان بنا دیا گیا۔ یہ لسانی اور علاقائی بھی ہے اور اس نے تعلیمی اداروں کے لسانی اوور علاقائی تنوع کو ایک آزار بنا دیا ہے۔ یہ سیاسی بھی ہے اور اس نے سیاست کو شعوری مشق کی بجائے اندھی عقیدت اور کلٹ کا روپ دے دیا ہے۔ مذہب سے سیاست تک اور زبان سے ثقافت تک، کوئی چیز ایسی نہیں جو جدید تعلیمی اداروں میں نفرت اور محاذ آرائی کا عنوان نہ بن چکی ہو۔ حیرت یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی کبھی معنویت کے ساتھ زیر بحث نہیں آ سکی۔ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں، نوجوان زخمی ہوتے ہیں، لاشے تک گر جاتے ہیں لیکن کبھی کسی نے اس کو اس کی سنگینی کے ادراک کے ساتھ زیر بحث لانے کی کوشش نہیں کی۔گویا کہیں لا شعوری طور پر یہ طے کر لیا گیا ہے کہ جدید تعلیمی اداروں کا انتہا پسندی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔اصل میں یہ انتہا پسندی ہے جو دھشت گردی کے لیے زاد راہ فراہم کرتی ہے۔ انتہا پسندی کسی بھی شکل میں، مذہبی ہو، سیاسی ہو، لسانی ہو، ثقافتی ہو اس میں یہ پوٹینشل موجود ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت اگلے درجے میں دہشت پر مائل ہو جائے۔ اس دہشت کے پھر مختلف عنوانات ہوتے ہیں۔کچھ نظروں سے اوجھل رہتے ہیں کچھ سامنے آ جاتے ہیں لیکن یہ اپنی ہر شکل میں معاشرے کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ جدید تعلیمی اداروں پر کسی نے اس پہلو سے تحقیق نہیں کی۔ شعور فاؤنڈیشن اور ادارہ برائے علم و تحقیق جیسے ادارے گاہے اس موضوع پر سماج کی حساسیات کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنی جگہ بہت مبارک کوشش سہی مگر مسئلے کی سنگینی کے مقابل اس کا حجم کم ہے۔ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے سامنے سماجی فکری اور حکومتی، ہر سطح پرحساسیت بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی ایک طرح سے دہشت گرد رجحانات کی نرسری ہوتی ہے۔ دہشت گردی کوئی ایسی چیز نہیں جو خارج سے ظہور پزیر ہوتی ہو۔یہ سماج کی فکری فالٹ لائنز کا منطقی نتیجہ ہے۔ اور یہ داخل سے پھوٹتی ہے۔ انتہا پسندی کسی بھی شکل میں ہو یہ دوسرں کی ذات کی، ان کے شعور کی، ان کے فہم کی نفی کا نام ہے۔ یہ رویہ جب عملی شکل اختیار کرتا ہے تو وہ دہشت گردی کہلاتا ہے۔ لیکن دہشت گردی کا خام مال انتہا پسندی سے ملتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ خام مال وافر مقدار میں کہاں پایا جاتا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ مدارس میں پایا جاتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ سماج ہمارے ہاں سنجیدہ مطالعے کا کبھی بھی موضوع نہیں رہا۔ایسی کوئی رسم یہاں ہوتی تو معلوم ہوتا کہ خرابی کہاں ہے۔ جدید تعلیمی اداروں کے ماحول پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں ہمہ جہت انتہا پسندی کا خام مال وافر مقدار میں موجود ہے۔ اس رویے کی تہذیب کرنے کے لیے کوئی شعوری پالیسی نہ لائی گئی تو حادثات جنم لیں گے۔