پاکستان میں نسلی ، مذہبی اور فرقہ واریت کی تفریق سے پیدا ہونے والی ممکنہ باہمی چپقلیش کو بھانپتے ہوئے قائد اعظم نے اتحاد ، ایمان اور تنظیم جیسے ااصولوں کو وضع کیا ۔منقسم معاشرے کا تصور قائد کے یہاں تھا ہی نہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں ہم نے دیکھا کہ کیسے بیرونی اور اندرونی موقع پرست طاقتوں نے ملک میں جاری افراتفری کو ہوا دی۔ دہشت گردی نے تو ہمیں حالات کی پست ترین سطح پر پہنچادیا جب ملک بھر میں قتل و غارت سے بڑے پیمانے پر خون بہایا گیا۔ ہمیں اندازہ ہو ا کہ دشمن تو بغیر تفریق کے سندھیوں، بلوچیوں، پنجابیوں اور پشتونوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ اسی طرح کی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم نے بھی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اعلان جنگ کیا اور اس سے سرخرو لوٹے۔ ابھی بھی ہمیں انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ معاشرے میں تحمل اور باہمی یکجہتی جیسی صفات معدوم ہو گئی ہیں۔ کچھ احباب کا ماننا ہے کہ اس خلا کو تعلیم کے ذریعے پر کیا جاسکتا ہے۔ ان کی بات بھی درست ہے۔ مگر ایک اور راستہ ہے ، گو کہ ہم نے کافی عرصہ ہوا اس پر سفر ترک کر دیا ہے۔ اس راستے کو اپناتے ہوئے ہم ان اقدار کو ازسر نو استوار کر سکتے ہیں ۔یہ ہے کھیل کا راستہ۔جی ہاں، کھیلوں کے ذریعے ہم متحد ہو سکتے ہیں ۔ پاکستانی کھیلوں کے شوقین ہیں۔ کسی بھی کھیل کے دوران ہماراجذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ اس احساس کو تقویت دے کر مثبت سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم یونان میں اولمپیکس کو جنگجوئوں اور خدائوں کی پرستش کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کھیلوں کو قومیت اور قومی تصور کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اہم جانا جاتا ہے۔ بعض نے تونسلی امتیاز کے لیے بھی کھیلوں کو استعمال کیا ۔ ہٹلر کی کوشش تھی کہ وہ 1936 کھیلوںکونازیوں کی نسلی برتری کو اجاگر کرنے کا واقع بنا دے ،مگر امریکہ کے سیاہ فام کھلاڑی جیسی اوون نے اس کوشش کو ناکام بناتے ہوئے میڈل اپنے نام کر لیا ۔ اسی طرح امریکہ میں سیاہ فام تحریک کو محمد علی کلے کی موجودگی نے مہمیز پہنچائی ۔ جنوبی افریقہ میں کھیلوں کے زریعے پہلے منافرت اور بعد میںیکجہتی پیدا کی گئی۔چین نے کھیلوں کو اقتصادی قوت کے اظہار کا منبع بنایا۔ آج کھیل قومی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کا اہم زریعہ مانے جاتے ہیں۔ کچھ مخصوص حالات میں تو اس سے باہمی روابط کی راہ ہموار کی گئی ، جیسے انڈیا پاکستان کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کھیلوں کی اس استعدادی قوت کا اندازہ ہے؟ ایک دور تھا کہ کھیل کی دنیا میں پاکستان کی اپنی ایک شناخت تھی۔ہم نے کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کئے ۔ کشتی میں رستم زمان کا ٹائٹیل جیتنے ،اسکویش میں صف اول کی کارکردگی دکھانے ،ہاکی میں جھنڈے گاڑنے اور پھر کرکٹ میں عالمی ریکارڈ اپنے نام کرنے تک ہم نے کمالات کا انبار لگا رکھا تھا۔ہمارے پاس عمدہ کھلاڑیوں کی ایک لمبی فہرست بھی تھی۔ یہ کھلاڑی نہیں ہمارے ملک کے نمائندے ہو اکرتے۔آپ میں بہت سے لوگوںکو ہاکی کے ہیروز یاد ہونگے، جیسے سمیع اللہ ، جنہیں اڑنے والا گھوڑا کہا جاتا تھا۔ اسی طرح حسن سردار اور شہناز شیخ تھے۔ جب بھی یہ قومی ہیرہ میچ جیت کر ملک کا نام اونچا کرتے تو ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے۔ خوشی کے ان لمحات سے ہم نہ سندھی ، نہ بلوچ، نہ پنجابی اور نہ ہی پشتون بلکہ صرف پاکستانی ہونے کی حیثیت سے لطف اندوز ہوتے۔ گرین شرٹ جب بال کو مسقل حرکت میں رکھنے سے حریف ٹیم کو پریشانی میں ڈال دیتی تو پاکستان زندہ باد کے نعروں سے خون گرما جاتا۔ اسی طرح جب انڈیا کو گول نہ کرنے دیا جاتا تو محسوس ہوتا جیسے جنگ جیت لی ہو۔ یہ وہ دور تھا جب جیت یقینی اور ہار نا قابل تصور مانی جاتی۔ کچھ عرصہ ہوا میرے بیٹے نے مجھے خالد عباس ڈار کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں وہ پی ٹی وی کی کسی تقریب میں ہاکی کے یونیفارم میں زیب تن انتہائی دکھ کے ساتھ گانا گا رہے تھے۔ او افتخار کی دلخراش آواز بلند کرتے ہوئے ،دراصل خالد اس کھلاڑی کی یاد تازہ کر رہے تھے جس نے گول نہ کر کے پاکستان کو کھیل سے باہر کروا دیا تھا۔ خالد جیسے جیسے او افتخار کی آواز لگاتے ویسے ویسے ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ گو ثابت ہوا کہ اگر کھیل کا معاملہ ہو تو ہم ہار کر بھی متحد ہیں۔ اس سے مجھے احساس ہو ا کہ ہمیں کسی ایک نہیں بلکہ تمام کھیلوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ تو ماضی کی بات ٹھری۔ آج کھیل کی دنیا میں پاکستان کا گراف بہت نیچے آچکا ہے۔ جہاں حکومتی سطح پر سرد مہری اس تنزل کی سب سے بڑی وجہ ہے، وہی تاجر برادری اور تعلیمی اداروں کی عدم دلچسپی بھی کھیلوں کی تباہ حالی کے ذمہ دار ہیں ۔ انہی عوامل کی وجہ سے وسائل اور پیسے کی قلت پیدا ہوئی اور کھیلوں کا معیار گرتا چلا گیا۔ ایسے حالات میں نئے ٹلینٹ ڈھونڈنا ، انہیں ٹرینڈ کرنا اور میدان میں اتارنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اور ویسے بھی کوئی نوجوان کھیل کی طرف کیونکر راغب ہو جب وہ دیکھتا ہے کہ اولمپیکس کا ایک سابق کھلاڑی ر وزی روٹی کے لیے رکشہ چلارہا ہے۔ہمارے بہت سے معاملات کی طرح کھیل بھی باہمی چپقلش کا شکار رہے ہیں۔ فیفا نے ہمیں اسی باہمی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کبھی منتخب نہیں کیا۔ پھر بھی اگر ہم فیصلہ کریں تو ان تمام ناکامیوں کے باوجود ہم ازسرنو اس میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ عمدہ اور منفرد کھیل ہیں ، جیسے چترال میں پولو، پنجاب میں کبڈی۔ ان کھیلوںکو باہمی روابط کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا مگر ہم ایسا کر نہ سکے۔ اس سے مجھے واقعہ یاد آیا جو کرغیزستان کے ایک افسر نے مجھے بتایا تھا۔ کر غیزستان نے وسطی ایشیا کے مقامی کھیلوں کا ٹورنامنٹ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں شمولیت کے لیے پاکستان کو بھی مدعوکیا۔ کوالیفائی ہونے کے باوجود پاکستان نے شرکت نہیں کی۔ اس سے ہم کھیلوں کی وزارت کی سنجیدگی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کھیلوں کی ترویج پر توجہ دیں۔ چونکہ ٹیلنٹ ڈھونڈنے سے لیکر انہیں ٹرینڈ کرنے اور میدان میں اتارنے تک کے سفر کا آغاز نچلی سطح سے ہوتا ہے اس لیے ہمیں قانون سازی کے زریعے اسکولوں کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ کھیل کو مضمون کے طور پر پڑھانا شروع کریں۔ اسی طرح حکومت کو کھیلوں کے میدان بنانے ہونگے۔ تاجر برادری کو بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کھلاڑیوں کو سکالرشب دینے کا عمل شروع کیا جانا چاہیے ۔ اسی طرح کھیل سے متعلق صوبائی اور وفاقی پا لیسیوں کے نفاذ کے لیے فوکل پرسنز کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اس ضمن میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ، بس ضرورت ہے تو ارادے کی۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ،جوخود کھلاڑی رہ چکے ہیں ،نے ہاکی کو سہارا دینے کافیصلہ کیا ہے۔ آرمی چیف نے بھی اسی قسم کے عزم کا اظہا رکیا ہے۔