قوموں کے رویوں میں مستقل تبدیلی کے لئے اذھان کی تبدیلی ضروری ہے۔ اذھان کی تبدیلی تعلیم سے ہوتی ہے اور دلوں کی تبدیلی تربیت سے ہوتی ہے ایک مسلسل وقت درکار ہوتا ہے تب جا کر کہیں کچھ روشنی کے آثار امید دلاتے ہیں کہ اب تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ کبھی ممکن ہے کہ مردہ خانے کے باہر زندہ وجود کھڑے کرنے کے بعد توقع کر لی جائے کہ ہم نے مردہ خانوںمیں بھی زندگی کی روح پھونک دی ہے۔ بنجر زمین پر مصنوعی خوشنما پھول بوٹے سجا کر گیاکوئی عقل مند اعلان کر سکتا ہے کہ اس نے مردہ زمین میں ہریالی کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ بہت آسان ہے دعویٰ کرنا اور بہت سہل سمجھا ہے یار لوگوں نے نعرے بلند کر کے قوم کو جھوٹی امیدوں پر زندہ رکھنا۔ زندگی اور حقیقی زندگی اقوام کی تب نظر آتی ہے جب ان کے سانس سے لے کر معاش تک اور سوچ سے لے کر آزاد عملی تک میں خود مختاری نظر آتی ہو۔ قوم تو آخر ایک جذبہ حریت کی اسیر ہے اور قوم اپنے مذہب سے غیر ارادی طور پر مجنونانہ وابستہ ہے اس قوم کے رگ و ریشے سے نہ دین کی جنونی عقیدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وطن کی محبت اس کے خانہ شعور سے علیحدہ کی جا سکتی ہے ۔ہر دور میں ایک مشق ستم جاری رہتی ہے کہ قوم کو بہشتی خواب دکھائے جاتے ہیں اور قوم خواب دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ خوش نہ بھی ہو ‘ خوش ہونا چاہتی ہے کیونکہ پرانے حاکم ان کو مایوس کر کے روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئے حکمران ترچھا کشکول اٹھا کر قرضہ یا نجانے کچھ اور مانگنے جاتے ہیں ان کے سفری اخراجات بسا اوقات (دمڑی کی بڑھیا ٹکہ سر منڈائی کے مترادف ہوتے ہیں۔ قرضہ مانگا یا عنایات کی کوئی اور مد‘ ان کا بال بیکا نہیں ہوتا‘ قوم کا بال بال قرض میں بندھ جاتا ہے۔محتاجی بڑھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم کے ارباب بست و کشاد غیروں سے مانگ کر حکمرانی کریں۔ ان کی خوئے حریت تو فالج زدہ ہی ہو کر رہ جائے گی۔ روشنی علم کے نام پر ہمارے ملک میں ایک طویل مدت سے تعلیم اور تعلیم کے ساتھ جو شیطانی مذاق برپا ہے اس کا اندازہ ہر دل سوز اہل وطن کو تو پوری طرح سے ہے لیکن قوم سے سیاسی مذاق کرنے والے مچھندرنئے خواب دکھا رہے ہیں اور سادہ لوح عامتہ الناس ذرا تسکین پاتے ہیں لیکن چند روز بعد ان مچھندروںکا حال کھلتا ہے تو عوام کا غیظ و غضب ان کو نئے انتخابات میں بیچ دریا کے جا ڈبوتا ہے۔ قوم پھر نئے سرے سے اپنی کم علمی اور کم زوری کی مار کا شکار ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ نظام حکمرانی اور نظام بست و کشاد‘ نظام افسر شاہی کی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی اول آخر نظام تعلیم کی تبدیلی ہی سے ممکن ہے۔ہمارے نظام تعلیم میں یکسانیت اور تخصیص و تخصص میں توازن کا فقدان ہے اور اس فقدان کا سبب وہ وراثتی خرابی ہے جو فرنگی سوچ کے باعث اس قوم کے ارباب بست و کشاد کو نصیب ہوئی ہے۔ یہ نصیب وراثتی ہے اس وراثت میں اپنے ہی ہم وطنوں کو غلام بنانے کا ذوق قدیم موجود ہے۔ آج کا تازہ ترین اظہار یہ ہے کہ وزیر اعظم نے یکساں نظام تعلیم کو اپنا ارادہ بتایا ہے لیکن کچھ وضاحت نہیں ہے ایک تصویر ہے۔ ایک مبلغ صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے شاید ان سے کچھ راہ نمائی لی ہو گی۔خیر یہ تو وزیر اعظم صاحب کا کاروبار سلطنت کا حصہ ہے کہ وہ کیا فرماتے ہیں اور کیا کرتے ہیں‘ وہ کس سے ملتے ہیں اور کس پر مہربانی یا انصاف کا دروازہ بند کرتے ہیں۔ ہماری معروضات تو اتنی ہی ہیں کہ آپ سب سے پہلے ملک کے دو رخی نظام تعلیم کی تفصیلات اپنے ذاتی علم میں لائیں اور نظام تعلیم کی رنگا رنگی کا جائزہ لیں۔ ہر طبقہ علم اور ہر طبقہ تعلیم‘ ہر طبقہ مدارس اور ہر طبقہ کلیات و جامعات کے نصابات کا خود مطالعہ فرمائیں‘ پھر پرائمری جماعتوں کے اساتذہ سے لے کر جامعات کے اساتذہ سے فنی مشاورت خود کریں۔ روایتی سیمینار یا خوشامدی سرکاری کانفرنسز تک محدود رکھ کر قومی اعلامیہ جاری نہ فرمائیں یہ سب سے زیادہ قابل ذکر عمومی شکایت قومی نظام تعلیم کے سلسلے میں یہ ہے کہ فرنگی زدہ ذہن نے عام لوگوں کی ضروریات سے ہٹ کر جو نظام تعلیم نجی طور پر متعارف کروایا ہے بلکہ مسلط کیا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس نظام تعلیم میں نصابات قومی ضروریات سے بالکل ہٹ کر ہیں۔ اس نظام تعلیم میں ثروت مند اور غریب طبقے کو واضح طور پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ تعلیم کی بنیادی ضرورت ذہانت اور محنت ہے۔ ذہانت اور محنت کے لئے ثروت و غربت کبھی بھی معیار نہیں ہو سکتے ۔محنت اور ذہانت کے حامل افراد بغیر کسی طبقاتی تمیز کے منتخب کئے جانا چاہئیں ذہانت و محنت کو بروئے کار لانے کے لئے قوم کے ہر بچے کو یکساں مواقع فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری اور قوم کے ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں ذہانت اور محنت کو معیار نہیں بنایا جاتا ۔وہاں پر اول آخر بنیاد سرمایہ ہے۔ کوئی غریب یا ذہین بچہ بغیر سرمائے کے ان اداروں میں قدم رکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ غریب بچہ ایک علیحدہ نظام تعلیم کا گرفتار ہوتا ہے اور امیر کا بچہ سرمایہ کاری کے مرکزی نظام تعلیم کا پرستار ہوتا ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے لاشعوری طور پر دو متضاد طبقے تعلیم کے حوالے سے وجود میں آتے ہیں ۔ایک دیسی تعلیم کا دیسی نمونہ‘ دوسرا فرنگی تعلیم کا نیم فرنگی نیم دیسی پیکر۔ پھر یہ دونوں گروہ متصادم ہوتے ہیں ۔وسائل پر قبضہ اور حکمرانی اردگرد ماحول پر قابو کسی نیم فرنگی گروپ کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ عوام کے مزاج آشنا نہیں ہوتے۔ مصائب اور پریشانیوں کی آندھیوں سے یہ لوگ محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ فرنگی زدہ نظام تعلیم ہمارے پاکستانی معاشرے کا وہ ناسور ہے جو اب جگہ جگہ اپنے اثرات کو مستحکم کر رہا ہے۔ بے چارے سفید پوش لوگ بھی اس نظام جبر میں بے زبان ہو کر پسے جا رہے ہیں۔ وہ بھی نچلی سطح پر نیم فرنگی ماحول کی نقل سکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں ۔وہاں کا آدھا نصاب کالے انگریز کا ہے اور آدھا نصاب سرکاری سکولوں سے مستعار لیا ہوا ہے۔ نہ بچہ انگریزی سیکھ پاتا ہے اور نہ ہی اپنی قومی زبان پر عبور ہوتا ہے۔ نیم بے بسی میں امدادی کتب کا سہارا لے کر امتحان پاس کرتا ہے۔ جب اسے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے تو بے چارہ چار حرف کسی بھی زبان میں سیدھے نہیں لکھ پاتا۔ اداروں میں جان تب آتی ہے جب اداروں کو چلانے والے دفتری عملے کی صلاحیت توانا ہو اور توانا صلاحیت کے لئے تعلیمی قبلہ بھی درست ہونا ضروری ہے۔