طے شدہ امور کو بار بار چھیڑنا اور پھر چھیڑ کر اپنی دانائی کا خراج وصول کرنے کی تمنائے خام کو جنم دینا نہایت درجے کی حماقت ہے اور یہ حماقت ایک متعدی وبا ہے۔ جو قوم اور ملک کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ آئین اور قانون نے راستہ بنا دیا اور وہ راستہ ایک طویل ایمانی‘ عوامی اور مسلسل جدوجہد کے بعد وجود میں آیا ہے۔ خائن فکر‘ مخالفین ،بے وقت کی راگنیوں اور بے مقصد موشگافیوں نے اس حسن جدوجہد کو بے قیمت کرنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن ملت و وطن کی فطرت تخلیق نے تمام مزاحمتوں کا سامنا کیا اور دین کے بنیادی عقائد کے دفاع اور دیگر مسلمات دینیہ کو آئین کا حصہ قرار دیا گیا۔ قیام پاکستان کو حادثہ قرار دینے والے لوگ کج فکری کے حادثے میں اور فطرت کی حقیقی حکمت سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔ دین فطرت کی حکمت بالغہ کا درس انہوں نے نہ پڑھا ہے اور نہ ہی ان کی عقل کے خانوں میں حقیقی حمیت دینی کا کوئی وجود پایا جاتا ہے۔ اسی لئے وہ وقتاً فوقتاً مختلف کونوں کھدروں سے اپنی ذہنی بے بسی اور فکری منافقت کو عیاںکرتے ہوئے ہر وہ بات کرتے ہیں جس سے دین و دانش کی روح مجروح ہوا کرتی ہے اور ہر لمحہ فساد اپنا رابستہ تلاش کرتا ہے۔ یہ مفسدین کا وہ گروہ ہے جن کی زبان اور قلم کا منتر بہت سے مواقع اور بہت سے مقامات پر کارگر ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کا مقصود اول تاآخر دین اور ملت اسلامیہ کا وجودی استحکام ہے۔ یہ وطن مسلمانوں کی دعوتی تاریخ کا وہ عملی نتیجہ ہے جو آج پوری دنیا میں عدم موافق حالات کے باوجود مسلمانوں کی ملی مرکزیت اور بقائے تشخص کا سب سے بڑا وجودی مظہر ہے ۔ملک کسی سازشی بندر بانٹ کا نتیجہ نہیں ہے نہ کسی فرقے یا مسلک کی آماجگاہ ہے۔ یہ وطن مسلمانوں کی ااجتماعیت کا عملی مظہر ہے۔ یہ درست ہے کہ چند لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے گروہی افکار کو مشتہر کرتے ہیں۔ اپنی جزوی رائے کو قوم کے اجتماعی عقیدے اور شعور پر تھوپنے کے لئے جماعت بندیاں کرتے ہیں اور بہت گہری خاموشی سے اغیار کی آواز کو بنام اسلام نجیب الفطرت سماعتوں میں اتارنے کی مسلسل سعی لاحاصل بھی کرتے ہیں۔ لیکن بالآخر ناکام رہتے ہیں۔ قومی زندگی کے کسی بھی اجتماعی موڑ پر ایسے ایسے ایمان افزوں واقعات سامنے آتے ہیں کہ یقین پختہ تر ہو جاتا ہے کہ دین حنیف ی حفاظت کسی خاموش بارگاہ بلند ہی سے ہوا کرتی ہے۔ تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں بھٹو دور کی قومی اسمبلی میں جب علمائے دین کی اجتماعی کاوشیں جاری تھیں تو مختصر اور کمزور حزب اختلاف کے چند اراکین سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی تھی کہ انگریز کا پروان چڑھایا ہوا شجرہ خبیثہ اس قدر جلدی زمین بوس ہو جائے گا۔بوذرصفت ‘ اور عقابی فکر دین کے حامل مولانا شاہ احمد نورانی اسمبلی میں اس قافلہ حق نما کی قیادت کر رہے تھے۔ قرار داد پیش کرنے والوں کی فہرست میں ایک سادہ لوح بظاہر دنیا دار ایک زمیندار غلام حیدر بھروانہ مرحوم رکن قومی اسمبلی بھی شامل تھے۔ ملک غلام مصطفی کھر سے مرحوم کے دیرینہ تعلقات تھے یہ صاحب جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے بعدازاں وہ روایتی سیاست کا شکار ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ غلام مصطفی کھر نے اپنے ذاتی تعلقات اور پارٹی ڈسپلن کا حوالہ دے کر انہیں انجام کار سے خبردار کیا اور بھٹو صاحب کے مزاج برہم اور شیوہ جورکے واقعات سنائے جواب میں غلام حیدر بھروانہ مرحوم جو بہت کم گو واقع ہوئے تھے پورے اعتمادسے گویا ہوئے اور غلام مصطفی کے کاندھے کو دباتے ہوئے جو الفاظ کہے۔ وہ آج بھی تاریخی روشنی کا عنوان جلی ہیں۔ بھروانہ صاحب نے پنجابی میں جواب دیا۔ پراں گھت سیاست نوں تے اپنے بھٹو صاحب نوں۔اللہ تعالی تے رسول ﷺ دل اچ ودے ہوون تو سب کچھ ہے۔ میں ناں ایمان دی گل توں نہ ہٹ ساں(پرے پھینک سیاست کو اور اپنے بھٹو صاحب کو۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ دل میں موجود ہوں تو سب کچھ ہے۔ میں تو ایمان کی بات سے نہ ہٹوں گا) پھر دنیا نے دیکھا بھٹو جیسا جابر طبیعت حالات اور حقیقت کو سمجھنے پر مجبور ہوا دینی شعائر اور مبادیات ایمان کا تحفظ اس وطن عزیز کی تخلیق میں رسوخ پا گیا ہے۔ نور خدا کو لوگ اور دھڑے جتنی مرتبہ بجھانے کی کوشش کریں گے خود ہی روسیاہ ہونگے۔تحفظ ناموس رسالت کا عقیدہ جوہر ایمان کے تحفظ کا عقیدہ ہے۔ اسے محض مولویانہ انداز فکر قرار دینا یا اسے مذہبی جذباتیت سے تعبیر کرنا سخت درجے کی لاعلمی اور کسی بھی ملت کے حقوق سے غفلت ہی کہا جا سکتا ہے۔ آئین دین‘ تعلیمات دین‘ افکار دین اور روایات دین میں کسی بھی موقع اور مکان پر اس جہالت اور کفریہ عقیدے کی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ کوئی شخص رسول آخر الزماں سید الکونین محمد رسولﷺ کی ذات و صفات کی امکانی یا وقوعی توہین کا ارتکاب کرے۔ اس کی سزا موت ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے اور ۔معتبرترین متفقہ قانون اسلامی ہے۔آئین پاکستان کی قانونی تشریحات میں 295-Cاور اس کی توضیحی دفعات میں گستاخ رسول اور اہانت رسول سے متعلقہ سزائیں ببانگ دی دہل مذہب اہل سیاست اور اہل عدل کو بغیر کسی شک و شبہ کے بیدار کر رہی ہیں کہ وہ اپنے ایمانی سرکاری اور ذمہ دارانہ منصب کے تقاضوں کو پورا کریں۔ لیکن بدقسمتی در بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سب خوف، لالچ اور روایتی لاپروائی کی مجرمانہ چادر اوڑھے ہوئے اپنے اپنے مقام پر خود خوفی کے سپرد ہو چکے ہیں۔خدا خوفی کا ترک کرنا دراصل فطرت و روایت اور حق و انصاف کا منہ چڑانا ہے۔آئین و قانون کی پاسداری حقدار کے حق کو مسدود کرنے سے کبھی بھی میسر نہیں آتی تحفظ ناموس رسالت کے نفاذ کے لئے ہمارے کارگر حلقوں میں جس تساہل سے کام لیا جاتا ہے اس کا نتیجہ بالآخر مایوسی اور جذبات کے اشتعال کا جنم لیناہے۔ غازی ممتاز قادری کے معاملے میں بھی اسی طرح کے حالات نے جنم لیا اور ایک نظریاتی اسلامی سلطنت میں حکومت عامتہ الناس کے حق بجانب مذہبی جذبات اور آئین پاکستان کی روح کے تحفظ دینے میں ناکام رہی ۔ یہ حقیقت ہمیشہ سر چڑھ کر بے مغز کار پردازوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اگر آئین دین اور آئین پاکستان کی روح کی تنفیذ میں روایتی ر غفلت برتی جائے تو حقیقت آشنا مذہبی استحقاق اپنی راستہ خود تلاش کرتا ہے۔ نفاذ قانون کے ذرائع اور طریقے اس قدر سست اور محض روایتی ہیں کہ قانون کی روح کو مجروح کرنے کا سبب اول بنتے ہیں اور اپنے روایتی جمود اور غفلت کے سبب اشتعالیت کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔صاحبان اقتدار مست ہیں نیرو بنسری بجا رہا ہے۔ علماء و مشائخ کے زور آور اور مقتدر حلقے اپنی مصروفیات میں مگن۔ قانون کے محافظ چپ سادھے ہیں۔تحفظ ناموس رسالت ﷺ سے بے خبر جو ذمہ دار بھی مجرمانہ غفلت میں سوتا رہے گا، اسے دنیا و آخرت میں دائمی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔